محمد حنیف
سری نگر، جو جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت ہے، طویل عرصے سے اپنی دلکش خوبصورتی کے لیے مشہور رہا ہے۔ اس کی چمکتی ہوئی جھیلیاں، دریائے جہلم کا نرم بہاؤ اور شاندار چنار کے درخت صدیوں سے شاعروں، مسافروں اور خواب دیکھنے والوں کے لیے سکون کا استعارہ رہے ہیں۔ لیکن اس پرسکون منظر کے پیچھے آج ایک خاموش مگر سنگین بحران پنپ رہا ہے،ماحولیاتی صفائی میں ایسی تنزلی جو شہر کی ماحولیاتی صحت اور ثقافتی روح دونوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
تیزی سے پھیلتی شہری آبادی، رہن سہن کے بدلتے انداز اور بڑھتی ضروریات نے سری نگر کے نازک ماحول پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔ کچرا مینجمنٹ، صفائی ستھرائی اور آلودگی پر قابو،جو کسی بھی صحت مند شہر کی بنیاد ہوتے ہیں،جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔ چیلنج صرف یہ نہیں کہ گلیاں اور آبی گزرگاہیں صاف کی جائیں بلکہ یہ بھی کہ عوام اور ادارے ایک مشترکہ ذمہ داری کے تحت شہر کے قدرتی ورثے کی حفاظت کریں۔
شہر کے بڑھتے ہوئے ٹھوس کچرے کا مسئلہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہر روز گھروں، دکانوں، بازاروں اور اداروں سے سینکڑوں میٹرک ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اس کچرے کا بیشتر حصہ مخلوط ہوتا ہے، جس میں سڑنے والا اور غیر سڑنے والا مواد شامل ہوتا ہے، جس سے ری سائیکلنگ اور ٹھکانے لگانے کے عمل میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا بڑا حصہ شہر کے نواحی علاقے میں موجود آچن لینڈفل سائٹ پر پھینک دیا جاتا ہے، جو کئی دہائیوں سے استعمال میں ہے اور اب اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ بھر چکی ہے۔ ایک وقت میں منظم طریقے سے کچرا پھینکنے کی جگہ اب ایک بڑے بدبودار پہاڑ کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو قریبی آبی ذخائر کو آلودہ کر رہا ہے۔ وہاں رہنے والے لوگ اس صورتحال کا روزانہ سامنا کرتے ہیں، جو شہر کے وسیع ماحول کی بے توجہی کی علامت ہے۔
لینڈفل کے علاوہ شہر کے بیشتر علاقوں میں غیر منظم کچرا پھینکنے کے آثار نمایاں ہیں۔ سڑک کنارے کچرا، بے احتیاطی سے پلاسٹک پھینکنا اور کچرے کے اوور فلو ہوتے ڈبے رہائشی علاقوں اور بازاروں دونوں کی خوبصورتی کو ماند کر دیتے ہیں۔ اگرچہ سری نگر میونسپل کارپوریشن نے کئی علاقوں میں گھر گھر کچرا جمع کرنے اور مکینیکل صفائی کا نظام متعارف کرایا ہے، لیکن یہ اقدامات غیر مستقل دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک گھروں میں کچرے کی الگ الگ چھانٹی اور عوامی تعاون نہیں ہوگا، جدید ترین انفراسٹرکچر بھی خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکتا۔
سری نگر کی جھیلیں اور دریا،جو کبھی کشمیر کی قدرتی خوبصورتی کی پہچان تھے۔آج ماحولیاتی بگاڑ کا شکار ہیں۔ ڈل اور نگین جھیلیں، جو کبھی اپنی شفافیت کے لیے مشہور تھیں، آج ماحولیاتی زبوں حالی کی علامت بن چکی ہیں۔ گھروں کے گندے پانی، ڈیٹرجنٹس اور کچرے کے اندھا دھند اخراج نے انہیں آلودگی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ پانی کی شفافیت کم ہو گئی ہے، آبی حیات گھٹ رہی ہےاور شکارہ گھاٹ جھاڑیوں کے گھنے جھرمٹ میں گھر گئے ہیں۔ برسوں کی صفائی اور بحالی کے باوجود مسائل برقرار ہیں، کیونکہ اصل مسئلہ شہر کے نکاسی آب کے نظام اور روزمرہ عادات میں ہے۔
دریائے جہلم، جو شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے، اسی طرح کی آلودگی کا شکار ہے۔ کبھی سری نگر کی زندگی کی علامت رہا جہلم آج اپنے ساتھ سلٹ، پلاسٹک اور گھریلو کچرا لیے بہتا ہے۔ اس کی بتدریج بگاڑ صرف ماحولیاتی خطرہ نہیں بلکہ اخلاقی سوال بھی ہے، کیونکہ یہ شہر کی اس دریا سے کمزور ہوتی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے، جس نے اس کی تاریخ اور تہذیب کو جنم دیا ہے۔
ہوا بھی ماحولیاتی تبدیلی کی گواہی دے رہی ہے۔ سخت سردیوں میں وادئ کشمیر کی ساکن فضا گھروں میں جلنے والے کوئلے، لکڑی اور بایو ماس کے دھوئیں کو روک لیتی ہے، جس سے آسمان دھندلا جاتا ہے اور سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ پرانے اور دھواں چھوڑنے والے گاڑیاں، تعمیراتی کام کا گرد و غبار اور کھلے عام کوڑا جلانا آلودگی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
نکاسی آب اور صفائی کا مسئلہ بھی شہر کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ سری نگر کا نکاسی نظام پرانا ہونے کی وجہ سے موجودہ آبادی یا بدلتے ہوئے موسمی پیٹرن کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ بھاری بارشوں کے دوران کئی علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں، جس سے ٹریفک متاثر ہوتی ہے اور صحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ مکمل سیوریج ٹریٹمنٹ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر گندا پانی براہ راست قدرتی آبی ذخیروں میں چلا جاتا ہے، جو آلودگی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
اگرچہ حکومت اور اس کے ادارے بڑی ذمہ داری اٹھاتے ہیں، لیکن ماحولیاتی صفائی میں عوامی رویہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ لاپرواہی سے کچرا پھینکنا، پلاسٹک کا بے دریغ استعمال اور گلیوں میں گندگی ڈالنا ایک عمومی روش بن چکی ہے۔ سیاحتی مقامات جیسے بلیوارڈ، ڈل گیٹ اور مغل باغات میں بھی پلاسٹک کی بوتلیں اور ریپرز بکھرے نظر آتے ہیں، جو ہمارے اجتماعی رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ سری نگر اسمارٹ سٹی مشن کے تحت مکینیکل صفائی، جدید کچرا ٹرانسپورٹ اور پبلک ٹوائلٹس نصب کیے گئے۔ سوچھ بھارت ابھیان نے اسکولوں اور محلوں میں آگاہی پیدا کی۔ لیکن یہ سب کوششیں بکھری ہوئی اور غیر مستقل ہیں۔ ماحولیاتی صفائی صرف مہمات سے نہیں بلکہ مستقل نظم و ضبط سے حاصل ہوتی ہے۔
سری نگر کی بحالی کے لیے جامع حکمت عملی درکار ہے۔ گھروں میں کچرا الگ کرنا، مقامی سطح پر کمپوسٹنگ یونٹس قائم کرنا، نکاسی آب اور سیوریج سسٹم کو جدید بنانا اور عوامی تعلیم کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ سیاحت ،جو شہر کی معیشت کا اہم حصہ ہے،کو صاف، سبز اور پائیدار ماڈل کی طرف لے جانا ہوگا۔
سری نگر کی ترقی مشترکہ ذمہ داری کے اصول پر مبنی ہے۔ حکومت منصوبہ بندی اور نفاذ کرے، لیکن عوام کو تعاون، شرکت اور نگرانی کرنی ہوگی۔ ہر کوڑا پھینکنا، ہر پلاسٹک بیگ نالی میں ڈالنا نقصان ہے اور ہر چھوٹا قدم جیسے کچرے کی چھانٹی، گلی صاف کرنا یا درخت لگانابہتری کی طرف قدم ہے۔
سری نگر نے صدیوں کی سیاسی، ثقافتی اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ آج اس کی بقا ماحولیاتی ذمہ داری پر منحصر ہے۔ صفائی اور ماحولیاتی توازن بحال کرنا نہ صرف انتظامی ضرورت ہے بلکہ آنے والی نسلوں کا حق بھی ہے۔
سری نگر کی اصل پہچان اس کی خوبصورتی ہے۔ اسے محفوظ رکھنا صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے۔ ایک صاف ستھرا سری نگر خواب نہیں، ایک ممکن حقیقت ہے،اگر ہم اسے اپنی مشترکہ ذمہ داری سمجھیں۔