بلا شبہ اس دنیا میں عقلمند انسان وہی ہے جو اپنی زندگی کو ضروری کاموں میںمصروف رکھے ،ان کاموں اگر نیکیوں کا کوئی ذریعہ نہ ہوتو وہ زندگی غیر شائستہ کہلائے گی اور جس زندگی میں کوئی تغیر نہ ہو ،وہ موت کا ہی باعث قرار پائے گی ،یعنی وہ زندگی انسان کے لئے موت سے بھی سخت ہوگی، اس لئے زندگی میں کوئی ایسا دن نہ گذرےجس میں انسان اپنے آپ میں کوئی بہتری پیدانہ کرسکے،جبکہ کسی بھی کام میں کامیابی کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ انسان، حیوانات کی طرح حلیم ،صابر اور محنت کش بن جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرےکے نوجوان نسل کی زیادہ تر تعداد بے شمار مسائل، چیلنجز اور افراتفری کے گردِ آب میں پھنسی ہوئی ہے۔جس کے نتیجے میںوہ نہ صرف اپنی مقصدِ حیات سے دور ہورہی ہےبلکہ اپنے قیمتی وقت کی اہمیت سے بھی لاپرواہ ہوکرنہ صرف مختلف قسم کی گمراہیوں ، بے راہ رویوں اور انحرافات کا شکار ہوتی ہےبلکہ تعلیمی میدان میں بھی پیچھے ہوتی چلی جارہی ہے۔چنانچہ ہمارے معاشرے میںبے راہ روی، بے اعتدالی، افراط و تفریط، مایوسی اور بے حسی کا جو عالم ہے،اُس سے ہماری نوجوان نسل کو صحیح رہنمائی نہیں ملتی ہےاور وہ اخلاقی خرابیوں اور دوسری غلط کاریوں کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ حالانکہ جوانی زندگی کا بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے،جس میں انسان بڑے بڑے مرحلے طے کرتا ہے اور ایسے انقلابات لاتا ہےجن سے ملک اور معاشرے کا فلاح و بہبودہوجاتا ہے۔ظاہر ہے موجودہ دور میں دنیامیں علم وٹیکنالوجی کے میدان میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے، ہر آئے دن نت نئی ایجادات اور دیگر تعلیمی مسابقتوں کے میدان میں حیرت انگیز کامیابیاںمنظر عام پر آرہی ہیں،جنہیں دیکھ کر ذہن میں یہ سوال کھٹکنے لگتا ہے کہ ہمارے نوجوان مسابقت کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں جبکہ باقی دنیا کے نوجوان بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اگر اس کی وجوہات کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف علل و اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ا کثر اوقات ہمارے نوجوان ترقی کے لیے کچھ دیر تک تو محنت کرتے ہیں لیکن اگر کسی ایک جگہ انہیںناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائےتو وہ دل برداشتہ ہو کر ہمت ہاردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ دوڑ لگانے والا ضروری نہیں کہ پہلی بار ہی مقابلہ جیت جائے، ناکام بھی ہو سکتا ہے ،مگر اس کی یہ ناکامی اُس کے سامنے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے ،کیونکہ وہ بھول جاتا ہے کہ ناکامی کے بعد ہی کامیابی ممکن ہے۔ایسے نوجوان دن دگنی رات چگنی محنت کرتا رہے، لیکن اس کی محنت کا کوئی ماحصل نہیں ہوتا کیوں کہ اُسے نہ منزل کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی مقصد ِ زندگی سے با خبر ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں اُسے ہر موڑ پر ناکامیوںکے سِوا کچھ نصیب نہیں ہوتا۔اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی زندگی کے مقصد کومتعین کریں اور اس کے حصول کے لئے جد و جہد کے ساتھ جُٹ جائیں اورکسی ناکامی سے خوف زدہ نہ ہو جائیں تو یقیناًکامیابیاں اُن کے قدم چومیں گی۔ اگر کوئی نوجوان اپنا ہدف تو معین کرتا ہے لیکن اُس کو پانے کے لیے تلاش و کوشش نہیں کرتا بلکہ کاہلی اورسُستی برتتا ہےتو وہ صرف کامیابی کے سپنے ہی دیکھ سکتا ہے اُسے حاصل نہیں کر سکتا۔ہمارے معاشرے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اپنی کاوشوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو دوسرے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کے تمسخراُڑانے لگتے ہیں، جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کو گورِ ندامت و حسرت میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیتا ہےاور اگر کوئی پڑھ لکھ جاتاہے تو وہ چھوٹے موٹے کام کر نا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ حالانکہ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے۔نوجوان نسل کی پیچھے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دین اور دینی تعلیمات سےدور ہوتے جارہے ہیں،جبکہ دینی تعلیمات انسانی فکر کے دریچے کھول کر اُسے ترقی کےراستوں سے آگاہ کرتی ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور اساتذہ اِن نوجوانوں کی ذہن سازی کریں، انہیں زندگی کی سیدھی راہ دکھائیں تاکہ وہ اپنی حیات ِ زندگی کے مقاصد کو متعین کرسکیںاورہر شعبے اورہر میدان میں آگے بڑھیں۔