محمد تسکین
بانہال// تین جولائی سے شروع ہونے والی سالانہ امرناتھ یاترا کے پیش نظرفوج نے جموں سرینگر قومی شاہراہ پر اپنی چوکسی بڑھا دی ہے اور امرناتھ یاترا کے عقیدتمندوں کیلئے بہتر حفاظتی انتظامات کیلئے فوج ، پولیس اور سی آر پی ایف کے جوان کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں ۔ جموں و کشمیر پولیس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس یا سی آر پی ایف کو چندرکوٹ اور بانہال کے مقام قائم لنگروں اور مختلف حصوں میں تقسیم شاہراہ کے سیکٹروں کی حفاظت کی ذمہ داری ہے جبکہ فوج جموں سرینگر قومی شاہراہ اور اس کے پہاڑوں اور اس سے جڑنے والی رابطہ سڑکوں سے یاترا کی حفاظت کرے گی اور اس تین طرز کے سیکورٹی حصار کیلئے پولیس ، فوج اور سی آر پی ایف کے اعلی افسران نگرانی کرینگے ۔فوج نے پہاڑوں کے بیچ سے گزرنے والی جموں سرینگر قومی شاہراہ پر جہاں چیکنگ اور چوکسی تیز کر دی ہے وہیں فوج اونچے پہاڑوں سے بھی یاترا کے قافلوں میں آنے جانے والی گاڑیوں کی حفاظت کرے گی۔ ضلع رام بن کے مقامی لوگ بھی شری امرناتھ یاترا کے استقبال کیلئے تیار ہیں اور لوگ ذیادہ سے ذیادہ یاتریوں کو جموں و کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ خورشید احمد سہمت اور مولانا عطا اللہ سمیت بانہال ، کھڑی اور رام بن کے مقامی لوگوں نے شری امرناتھ یاترا میں شامل یاتریوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یاتریوں کی حفاظت اور مہمان نوازی کیلئے کشمیری قوم برسوں سے جانی جاتی ہے اور پہلگام کے اچانک حملے کے بعد لوگوں نے جس طرح اس حملے کی مذمّت کی وہ اپنی مشال آپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ امرناتھ یاترا کے شروع ہونے کے منتظر ہیں اور زیادہ یاتریوں کو بغیر کسی خوف کے یاترا میں شامل ہونےکیلئے پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امرناتھ یاترا اور سیاحوں کی بھاری تعدادسے یہاں کے کاروبار اور سیاحتی سرگرمیوں کو فائیدہ پہنچے گا اور سیاحت سے روزگار کمانے والے لوگوں کو پہلگام حملے کے بعد ختم ہوا روزگار دوبارہ بحال ہونے کا امکان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ لوگ امرناتھ یاترا کے یاتریوں کی حفاظت کیلئے اور ان کی پر امن یاترا کیلئے دعا گو ہیں اور غلط سوچ رکھنے والے کسی بھی عناصر کو پہلے لوگوں سے سامنا کرنا پڑیگا اور بعد میں حکومت ، فوج اور پولیس سے نمٹنا پڑیگا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے میں بے گناہ سیاحوں کو بچانے کی کوشش میں کشمیری نوجوان نے اپنے مہمان سیاحوں کی جان بچانے کی کوشش میں اپنی جان دیکر کشمیریوں کی مہمان نوازی اور غیر کشمیریوں کے تحفظ کی اپنی سابقہ روایت کو جلا بخشی ہے۔