مسعود محبوب خان
زندگی اور وقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو وقت ضائع کرتا ہے، وہ دراصل اپنی زندگی کو ضائع کر رہا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں مبتلا ہیں،’’ صحت اور فراغت‘‘ (بخاری )۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے یہ قیمتی سال، صحت اور فرصت ،یہ سب آزمائش کا حصّہ ہیں۔ ان کا بہترین مصرف وہی ہے جو ہمیں آخرت میں کامیابی دے۔ پس، ہمیں سوچنا ہوگا، کیا ہم وقت کی قدر کر رہے ہیں؟ کیا ہمارا ہر دن نیک اعمال، علم اور خدمتِ خلق میں گزر رہا ہے؟ کیا ہم اس نعمت کا شکر ادا کر رہے ہیں، یا اسے ضائع کر رہے ہیں؟ زندگی ایک امتحان ہے اور وقت اس امتحان کی گھڑیاں۔ جو اس وقت کو سمجھداری سے استعمال کرے گا، وہی کامیاب ہوگا۔ پس ہمیں چاہئیں کہ اپنی زندگی کو سنواریں، اپنے وقت کو قیمتی بنائیں اور اللہ کے دیے ہوئے اس عظیم تحفے کا شکر گزار بنیں۔
زندگی ایک بے حد قیمتی اور نایاب نعمت ہے اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ انسان کی جستجو اور سائنسی ترقی نے ہمیں کہکشاؤں اور ستاروں تک پہنچا دیا، مگر حیات کا راز اب بھی زمین تک محدود نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت قدرت کے اس بے مثال نظام کی گواہ ہے جس میں ہر جاندار چاہے وہ یک خلوی ہو یا ایک عظیم الجثہ مخلوق، اپنی مخصوص اہمیت رکھتا ہے۔ انسان واقعی کائنات کی سب سے پیچیدہ اور شعور رکھنے والی مخلوق ہے، مگر اس پیچیدگی کے ساتھ ایک بڑی ذمّہ داری بھی آتی ہے،یہ جاننے اور سمجھنے کی کہ ہم یہاں کیوں ہیں، اور ہمیں اس زندگی کو کیسے گزارنا ہے۔ سائنسی تحقیق اور فلکیاتی کھوج ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لیکن اس سفر کا سب سے بڑا سبق شاید یہی ہے کہ جو زندگی ہمیں ملی ہے، وہ کتنی نایاب، کتنی حسین، اور کتنی اہم ہے۔
انسانی زندگی کی پیچیدگی اور انفرادیت کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ ایک محض خلی سے شروع ہونے والا یہ سفر ایک مکمل اور منفرد شخصیت کی تخلیق پر منتج ہوتا ہے۔ ہر خلیہ اپنے مخصوص کام اور ذمّہ داری کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اس کی درست ترتیب میں ذرا سی بھی گڑبڑ پورے وجود کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہی اصول وسیع تر زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جیسے ایک خلیہ اپنی ذمّہ داری نہ نبھائے تو جسم متاثر ہوتا ہے، ویسے ہی اگر انسان اپنی اجتماعی ذمّہ داریوں سے غافل ہو جائے تو معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ فطرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر فرد کی اہمیت ہے اور ہر فرد کی کوشش ایک بڑے نظام کا حصّہ ہے۔ زندگی کی یہی ترتیب اور تنظیم اس کے انمول ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔یہ سوال فلسفے، سائنس اور روحانیت کے پیچیدہ دائرے میں لے جاتا ہے۔ اگر زمین ہر سال اپنے مدار میں وہیں پہنچ جاتی ہے، اگر موسم، دن، اور تاریخیں دہراتی ہیں، تو انسان کیوں نہیں لوٹتا؟ اس کا جواب ہمیں وقت کی فطرت میں تلاش کرنا ہوگا۔ فزکس میں وقت کو ایک جہت تصور کیا جاتا ہے، مگر یہ عام جہات (X, Y, Z) سے مختلف ہے۔ مکان کی جہات میں ہم آگے پیچھے جا سکتے ہیں، مگر وقت کی جہت میں ہمارا سفر یکطرفہ ہے،ہم ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں، پیچھے نہیں جا سکتے۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق، وقت کی رفتار کشش ثقل اور رفتار کے زیر اثر بدل سکتی ہے، مگر عمومی طور پر یہ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان جو چلا جاتا ہے، وہ کیوں نہیں پلٹتا؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمارا جسم فطری قوانین کے مطابق تحلیل ہو جاتا ہے، مگر توانائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ کسی اور صورت میں، کسی اور جہت میں یا کسی اور وقت میں موجود ہو؟ مذہبی اور روحانی نظریات اس سوال کا جواب مختلف انداز میں دیتے ہیں،کچھ اسے حیات بعد الموت کہتے ہیں، کچھ اسے کائنات کی لامتناہی سائیکل کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ یہی انسانی جستجو کی سب سے بڑی پہیلی ہے—ہم کہاں سے آئے، کہاں جا رہے ہیں اور کیا ہم کبھی واپس آئیں گے؟ سائنس شاید اس کا کوئی حتمی جواب نہ دے سکے، مگر زندگی کی انفرادیت اور اس کے تسلسل کا یہ احساس ہی ہمارے ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
وقت ایک ایسی جہت ہے جو کسی کے لیے نہیں رکتی، کسی کے لیے نہیں پلٹتی اور اپنی لہر میں سب کچھ بہا لے جاتی ہے۔ انسان بھی اسی بہاؤ کا ایک مسافر ہے اور اس کا سب سے قیمتی اثاثہ یہی وقت ہے۔ جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ وقت ہی زندگی ہے، تو ہمیں اس کے ایک ایک لمحے کی قدر کرنی چاہیے۔ ہر لمحہ جو گزر گیا، وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور جو وقت ہمارے پاس ہے، وہی ہماری اصل دولت ہے۔ اسے بے مصرف گنوانا یا لاحاصل کاموں میں ضائع کرنا دراصل اپنی زندگی کو کھونا ہے۔ یہ احساس ہمیں اس بات کی طرف مائل کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں، اپنے وقت کو ایسی چیزوں میں صرف کریں جو ہمارے لیے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہوں اور ہر گزرتے لمحے کو اس شعور کے ساتھ گزاریں کہ یہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ وقت کی قدر ہی درحقیقت زندگی کی قدر ہے۔
زندگی رویوں کا ہی مجموعہ ہے اور ہر انسان اپنے رویوں کے ذریعے اپنی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ مثبت رویے زندگی کو سنوارتے ہیں، اسے خوشگوار اور بامقصد بناتے ہیں، جب کہ منفی رویے زندگی کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ رویے دراصل ہمارے خیالات، تجربات اور ماحول کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ محبت، صبر اور خوش اخلاقی کو اپناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف، نفرت، تکبر اور ظلم جیسے رویے انسان کو خود بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر روز، ہر لمحہ، ایک انتخاب کر رہے ہوتے ہیں—ہم کس راستے پر چلیں گے، کن رویوں کو اپنائیں گے اور کس طرح اپنی زندگی کا رخ متعین کریں گے۔ جو لوگ شعوری طور پر مثبت رویے اپناتے ہیں، وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔ زندگی کا حسن اسی میں ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں، ان میں بہتری لائیں، اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی مثبت بنائیں۔ آخرکار، ہماری زندگی کا منتقی انجام ہمارے رویوں کا ہی عکس ہوگا۔(جاری)
[email protected]
����������������