معراج نذیر ڈار
زندگی ! یہ لفظ جتنا آسان اور سادہ لگتا ہے اتنا ہی گہرا ، طلسمی اور زوردار ہے ۔ہر کسی کو معلوم ہے کہ زندگی کس شئے کا نام ہے مگر پھر بھی کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے ۔انسان پیدا ہوتا ہے، بچپن سے گزر کر جوانی اور پھر بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے۔ ابھی اچھی طرح اس کا قدم بھی جما نہیں ہوتا ہے کہ موت اس کو لپیٹ لیتی ہے ،کمسنی میں انسان چاہتا ہے کو جلدی جوان ہو جائے اور جب ہو جاتا ہے تو کہتا ہے ’’ کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے ۔‘‘ہر اک قدم پہ انسان وقت کا اسیر بن کے رہتا ہے ، وہ بے بس بےچارہ بن کر حالات جیسے ہو ویسے ہی صبر و استقامت سے کام لیتا ہے۔ زندگی میں اتار چڑاؤ ,غم و خوشی، حسرت و مسرت، چاصل و لاحاصل سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انسان جتنا غم اور پریشانی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ اس میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ میں انسانی زندگی میں غم اور پریشانی کی حیثیت کیا ہے اور انسان کس کس طرح سے پریشان ہے۔
انسان کی زندگی تین مراحل سے گزرتی ہے : بچپن ,جوانی اور بڑهاپا۔ بچپن میں انسان تمام حالات و واقعات سے بےنیاز ہوتا ہے۔ دنیا کیا کر رہی ہے اس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس مرحلے میں انسان جس جیز سے پریشان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہوتا . وہ اپنے فيصلے خود نہیں کر سکتا، جیسے اس کے والیدین اور بڑے چاہے اس کا ویسا ہی طرز عمل ہونا چاہئے۔ وہ جیسے زنداں میں قید کیا گیا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ جوان ہونے کی خواہش کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ جوانی میں قدم رکھتے ہی بلکل آزاد ہو جاتا ہے۔ اس کو زندگی سے پیار ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہمیشہ ہی جوان رہوں، مگر جب وہ آگے بڑھتا ہے جس آزادی سے وہ لطف اُٹھاتا تھا وہی آزادی اس کے لئے باعث دل جوئی اور وجۂ غم بنتی ہے۔ اس نے جو لاعلمی یا کم فہمی میں فیصلے کیے ہوتے ہیں وہی اس کو بعد میں پچھتاوے کا ذریعہ بنتے ہیں، وہ اپنا قیمتی وقت اور جوانی کی توانائی لڑکھپن کی خواہشوں اور حسرتوں میں صرف کرتا ہے اور جو وقت کارنامے انجام دینے کے لئے ہوتا ہے وہ ضایع ہو جاتا ہے۔اس کے بعد وہ شادی کرتا ہے، بچے ہوتے ہیں اور گھر بجاتا ہے، اب وہ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں قید ہو جاتا ہے اور جو اس کی ذاتی خواہشیں ہوتی ہیں ان پر زنگ لگ جاتا ہے۔ پھر پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کب بڑھا ہو جاتا ہے، جسمانی اور ذہنی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ سونچتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی ضایع کر دی ہے، وہ جو بھی کرنا چاہتا تھا وہ سب نہیں کر پاتا۔ موت اس کے اوپر ایک بادل کی طرح منڈلاتی رہتی ہے، یہ وہ مرحلہ ہے جس میں انسان غم اور پریشانی اور یاس اور دل جوئی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد موت انسان کو تمام کر دیتی ہے , دیکھا جائے تو انسان ہر مرحلے میں کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پریشانی انسان کا مقدر ہے۔ انسان چاہے یا ناچاہے اس کو کسی نہ کسی اور کھبی نہ کھبی پریشانی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔
اس پریشانی کا حل کیا ہے ؟
میرے نزدیک اس پریشانی کا کوئی حل نہیں ہے ۔انسان جتنی کوشش کرتا ہے حل نکالنے کی اتنا ہی وہ اس پریشانی میں کرفتار ہو جاتا ہے، جیسی زندگی گزر رہی ہو اس کو گزرنے دینا ہے ۔’’ حالات و واقعات کو قابو میں کرنا اور حد سے تجاوز نہ کرنا اس پریشانی کا حل ہے۔‘‘ انسان کو زندگی میں کبھی یاس اور کبھی آس سے گزرنا ہی پڑتا ہے ۔ا نسان کو چاہئے کہ وہ جیتا رہے، کبھی یہ نہ سونچے کہ اب ہار مان لینی چاہئے۔ یہ جو سارا سفر ہے،’’ ہار نہ ماننے کا اور چاہئے زندگی میں کیا ہی ہو پھر بھی مصیبتوں سے لڑکر آگے بڑھتے رہنا‘‘ اسی کا نام زندگی ہے۔ انسان تو ہے ہی بےبس، اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن بھر بھی ایک باشعور مخلوق ہونے کے طور پر اس کو اس بےبسی میں اپنا کردار ایسے ادا کرنا ہے جیسے وہ ہے سب کچھ کر رہا ہو، انسان ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ انسان کے لئے پوری کائنات ہے اور اگر یہی انسان غم اور مصیبت سے ہار جائےگا تو کائنات کا ہونا رائیگاں ہے ۔ غم اور پریشانی میں حقیقی طور پر انسان کو انسان ہونے کی آزمائش ہوتی ہے ۔آخر میں یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ حالات چاہے کتنے نازک ہو ،قسمت کی کمان کتنی ہی بار ٹوٹیں، غم کتنا بھی ہو ،مصیبت کتنی ہی بار خود کو دہرائے، یاس آپ کو کتنا ہی ستائے، دل و دماغ ویران ہی کیوں نہ لگے، ہمیشہ یاد رکھنا ! ’’ ہمت کرو جینے کی تو ایک عمر پڑی ہے ‘‘ اور امیدیں کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں بر آئیں گی ۔
رابطہ۔7889562643
Mehrajd878gmail.com