مسجد عائشہ سے عمرہ کرنا درست اور بہترعمل
سوال:عمرہ کرنا ایک عظیم عبادت ہے جو مکہ مکر مہ میں کعبہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔عمرہ کرنے کے لئے جب کوئی مسلمان سفر کرتا ہے تو اُس کو میقات سے پہلے احرام باندھنا ہوتا ہے۔احرام کے بغیر میقات سے آگے جانا غیر شرعی ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں ہی مقیم ہو تو وہ اگر عمرہ کرنا چاہے تو وہ احرام کہاں سے باندھے گا۔بکثرت لوگ مکہ مکرمہ میں مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں جب کہ کچھ حضرات کا کہنا یہ ہے کہ مسجد عائشہ سے عمرہ نہیں کرنا چاہئے۔اب اس بارے میں وضاحت مطلوب ہے۔چونکہ بہت سے لوگ اس سے کنفیوز ہوجاتے ہیں،اس لئے جواب بہت ضروری ہے۔
عمر علی ،مقیم حال مکہ
جواب:مسجد عائشہ تنعیم کے مقام پر ہے۔اس جگہ سے چونکہ حضرت عائشہؓنے عمرہ کا احرام باندھا تھا، اُس وقت وہ جگہ شہر ِ مکہ کے باہر حدود حرم کےاختتام پر تھی،اُسی جگہ جو مسجد بنائی گئی وہ مسجد عائشہ کہلاتی ہے۔دراصل مکہ میں مقیم شخص جب عمرہ کرنا چاہے تو اُسے حدود حرم سے باہر نکل کر احرام باندھنا ضروری ہے۔اب حدود حرم سے نکلنے کے لئے وہ کوئی بھی حرم کی سمت اختیار کرسکتا ہے۔چاہے وہ جعرانہ جائے، چاہے تنعیم یعنی مسجد عائشہ جائے یا حدیبیہ یعنی شمیسیہ جائے۔کسی بھی جگہ جاکر احرام باندھ کر آئےاور عمرہ کرے۔حضرت نبی اکرمﷺ نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضرت عائشہؓکو تنعیم کے مقام سے عمرہ کرنے کا حکم دیا تھا۔اس لئے کہ وہ سب سے قریب جگہ تھی،بعد میں اسی جگہ مسجد تعمیر کی گئی اور یہ جگہ مسجد عائشہ کے نام سے مشہور ہوگئی۔خود حضرت نبی اکرم ﷺ نے جعرانہ سے عمرہ کیا تھا۔اب ان دونوں جگہ سے عمرہ درست ہے۔اس پر اجماع امت ہے۔بخاری شریف میں اس عنوان کو لکھ کر امام بخاریؒ نے مسجد عائشہ سے عمرہ کی اجازت بلکہ مستحسن بیان کیا ہے۔چنانچہ جو حدیث امام بخاری نے نقل فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جاکر عمرہ کرائو۔امام بخاری نے اس پر ترجمتہ الباب لکھا کہ تنعیم سے عمرہ کرنا درست ہے ۔اس حدیث کے ذیل میں علامہ ابن حجر نے لکھا ،حضرت عائشہؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تنعیم سے عمرہ کیا تو یہ ثبوت ہے کہ اس جگہ سے عمرہ کرنا شرعاً درست ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیر نے جب اپنے زمانۂ حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر ِجدید کی تو تکمیل کے موقعے پر اعلان کیا کہ جس سے ہوسکے ،وہ میری اطاعت فرمان کرکے تنعیم پہنچے اور وہاں سے عمرہ کرے۔راوی کہتے ہیں اُس دن کتنے غلام آزاد کئے گئے ،کتنے اونٹ اور بکریاں قربان کی گئیں ،اس سے پہلے میں نے کبھی اتنا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔خود عبداللہ بن زبیر نے سو اونٹ قربان کئے۔یہ واقعہ اخبار مکہ میں نیز سبل الہدیٰ میں ،سیرت حلبیہ میں، تاریخ مکہ وغیرہ میں ہے۔حضرت محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل پہنچا ہے کہ آپ نے اہلِ مکہ کے لئے تنعیم کو میقات قرار دیا ہے۔اخبار مکہ للفاکہی۔اس لئے مسجد عائشہ یعنی تنعیم سے عمرہ کرنا بالکل درست بلکہ بہت بہتر ہے ۔جو شخص یہ کہے کہ مسجد عائشہ سے عمرہ کرنا درست نہیں،اُس کی بات یقیناً حدیث کے بھی خلاف ہے اور اجماع امت کے بھی خلاف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:جیساکہ معلوم ہے کہ جدید تہذیب میں کھانے پینے کا ایک سسٹم بوفے کہلاتا ہے۔اگرچہ مسلمان معاشرے میں اس کا رواج نسبتاً کم ہے مگر پھر بھی بہت ساری تقریبات خصوصاً شادیوں میں کہیں کہیں اس کا نظارہ ہوتا ہے،بوفے میں اپنی مرضی سے اپنی اپنی پسند کے کھانے خود لینے ہوتے ہیں پھر کہیں بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے اور کہیں کھڑے کھڑے ہی لوگ کھاتے ہیں۔اس سلسلے میں اسلامی تعلیم کیا ہے اور اگر کہیں ایسی نوبت آگئی تو ہم کو کیا کرنا چاہئے۔ہمارا تجارتی سلسلہ کشمیر سے باہر بڑے بڑے شہروں میں ہے ،وہاں مختلف فنکشن ہوتے ہیں جن میں ہمیں شریک ہونا پڑتا ہےتو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
امین اسلم ڈار
کھڑے ہوکر کھانا پینا خلافِ سنت عمل
سائنسی تحقیقات کے مطابق بھی بدن کے لئے نقصان دہ
جواب:اسلام میں کھانے پینے کے متعلق مفصل احکام بیان کئے گئے ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں۔ہاتھ دھوکر کھانا کھایا جائے۔دسترخواں بچھاکر کھانا کھایا جائے۔ٹیک لگائےبغیر کھانا کھایا جائے۔ہاں ! اگر بیماری یا بُڑھاپے کا عذر ہو تو ٹیک لگاکر کھانے کی اجازت ہے۔زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایاجائے،دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے کھایا جائے۔کھانا کھاکر الحمد اللہ پڑھی جائےاور کھانے کے بعد ہاتھ بھی دھوئے جائیںاور کُلّی بھی کی جائے۔کھانے کے مزید آداب اور سنتیں فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔حفظان ِ صحت کے اصولوں اور طبی تحقیقات کے مطابق ان تمام سنتوں میں بے شمار فائیدے اور ان کے ترک کرنے کے نقصانات ہیں۔کھڑے ہوکر کھانے پینے میں کئی ارشادات رسولؐ کی خلاف ورزی یقینی ہے۔چند احادیث یہ ہیں:
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا۔مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ،تو ہم نے پوچھا کہ کھانے کے متعلق کیا حکم ہے یعنی کیا کھڑے ہوکر کھانا بھی منع ہے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،یہ اور بھی زیادہ بُرا ہے۔بخاری شریف میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تکیہ لگاکر نہیں کھاتا بلکہ اُس طرح کھاتا ہوں جس طرح بندہ کھاتا ہے۔غرض کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا سراسر خلاف ِ سنت اور نبوی تہذیب کے منافی ہے۔لہٰذا جب کسی ایسی تقریب میں شریک ہونا پڑے جہاں فرش یا کرسیوں پر بیٹھ کر کھانے کا انتظام نہ ہو ،وہاں یا تو جانے سے معذرت کی جائے یا دعوت کرنے والوں سے کہہ دیا جائے کہ اگر بیٹھ کر کھانے کا انتظام ہو تو ہم کھانے میں شریک ہوں گے ورنہ ہماری طرف سے معذرت ہے۔اب کھڑے ہوکر کھانے پینے کے جسمانی نقصانات کا مختصر بیان دیکھئے۔غذائیات کے ایک عالمی ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے سے جسم کے رطوبتی نظام میں خلل ہوتا ہے ۔سیال مادّے کی روانی عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے،جسم میں زہریلے مادوں کی زیادتی ہونے لگتی ہے اور اس سے ہضم کا نظام متاثر ہوتا ہے۔جوڑوں میں سیال مادے جمع ہونے لگتے ہیں ،اُس سے جوڑوں میں سوزش ،درد اور اکڑ ن پیدا ہوتی ہے۔کھڑے ہوکر کھانے پینے سے گردوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔اس سے گردوں ،مثانے اور پیشاب کی نالی میں انفکشن پیدا ہوتا ہے۔
غذائی امور کے ایک دوسرے ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے کی عادت سے پرہیز کرنا چاہئے۔اس سے نظام ہضم درہم برہم ہوتا ہے ۔جب کھڑے ہوکر پانی پیتے ہیں تو یہ پانی سیدھے معدے کے نچلے حصہ میں تیز رفتاری سے پہنچ جاتا ہے جو معدے کے لئے انتہائی ضرر رساں ہے۔ ایک تیسرے ماہر کا کہنا ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے جوڑوں میں سوزش ،ورم اور درد پیدا ہوتا ہے اور جوڑوں کی کمزوری ہونے لگتی ہے۔ایک ماہر کا یہ بھی کہنا ہےکہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے دل،پھیپھڑے معطل ہوسکتے ہیں،اس سے گردوں کو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔غرض کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا بہر حال مضر صحت کام ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں طے ہے کھڑے ہوکر کھانا کھانے کے مضر اثرات کے متعلق بہت زیادہ مواد نیٹ پر بھی موجود ہے اور حفظانِ صحت کی کتابوں میں بھی ہے۔ایک محقق نے لکھا : جب انسان کھڑا ہوتا ہے تو جسم کے مرکزی مقامات کا اعصابی نظام انتہائی طور پر فعال ہوتا ہے تاکہ جسم کے تمام عضلات پر کنٹرول رہے اور جسم توازن سے کھڑا رہ سکے۔یہ ایک نازک عمل ہے جس میں اعصابی اور عضلاتی نظام ایک ہی وقت میں کام کرتے ہیں۔اب اگر کھڑے ہوکر کھانا کھایا جائے تو انسانی اعضاء کو جو سکون کھانے کے دوران مطلوب ہوتا ،وہ برقرار نہیں رہتا ۔اس سے سارا نظام ِ ہضم درہم برہم ہوتا ہے۔کھڑا ہوکر کھانے سےمعدہ کے اندرونی حصہ پر شدید عصبی اثرات پڑتے ہیں ۔اس سے دل پر مہلک دھچکے بھی لگ سکتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ کھڑا ہوکر کھانا یا پینا اسلامی اصولوں کے بھی خلاف ہے اور طبی اصول و ضوابط کے بھی۔اس کے لئے اسلام کی تعلیمات اس کی سچائی کی دلیل ہیں،کہ یہ اصول اللہ کے نبی علیہ السلام نے اُس وقت بیان فرمائے جب سائنسی تحقیقات نہ تھیںاور جو کچھ تحقیقات سامنے آرہی ہیں وہ سب سنت ِنبوی کی تائید کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۱ ۔جس امام کی داڑھی چھوٹی ہو کیا اس کے پیچھے نماز درست ہے ۔نیز داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہئے ؟
سوال۲۔نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
سوال۔۳:مقتدی نماز ظہریا نماز عصر کے لئے مسجد میں امام صاحب کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو امام صاحب خاموشی سے قرأت شروع کرتے ہیں۔اگر امام صاحب خودکوئی سورت پڑھیں اور مقتدی اپنے دل میں کوئی دوسری سورت پڑھے گا۔کیا اس کی نماز دُرست ہے ؟
یکے ازسائل۔ کولگام
شرعی داڑھی
جواب ۱۔ہرمسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ شرعی اصول کے مطابق داڑھی رکھنے کا حکم پوراکرے ۔ اگر کسی امام کی داڑھی نہ ہوتو اُس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ۔داڑھی کی کم سے کم مقدار ایک قُبضہ یعنی ایک مشت ہے ۔
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب۲۔افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیص جو رانوں تک ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو، تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔
ہاتھوں پر کڑا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے دور رہناضروری ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔
مقتدی کے لئے نماز میں سورت پڑھنا لازم نہیں
جواب ۳۔مقتدی کونماز میں کوئی سورت پڑھنالازم ہی نہیں ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائو تو پہلے صفیں اچھی طرح خوب سیدھی کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص امام بنے ، پھر وہ امام جب تکبیرپڑھے تو تم بھی تکبیرپڑھو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ حدیث مسلم شریف میں ہے ۔ اس حدیث میں مقتدی کو خاموش رہنے کاحکم دیا گیا ۔ سنن ،نسائی ،ابودائود اور ابن ماجہ میں حدیث ہے ۔ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: امام اس لئے مقرر کیا جاتاہے کہ اُس کی اقتداء کی جائے …پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو او رجب وہ قرأت کرے تو تم خاموش ہو جائو ۔ ان کے علاوہ قرآن کریم میں بھی یہی حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور خاموش رہو۔ اس لئے مقتدی پر کوئی سورت پڑھنا لازم ہی نہیں ہے ۔ جب لازم نہیں تو امام سے مختلف سورت پڑھنے کا سوال ہی نہیں ہے ۔