ماجد مجید
قرآن آسان ترین کتاب ہے جو انسان کی فطرت کی پکار ہے ۔اگر انسان کی فطرت مسخ شدہ نہیں ہے۔بلکہ سلیم ہے۔صالح ہے۔سلامتی پر قائم ہے تو وہ قرآن کو اپنے دل کی پکار محسوس کرے گا۔اس کے اور قرآن کے درمیان کوئی حجاب نہ ہوگا وہ اسے اپنے دل کی بات سمجھے گا۔اس کے لئے عربی زبان کا صرف اتنا علم کافی ہے کہ براہ راست ہم کلام ہوجائے۔جبکہ تدبر کے تقاضے پورے کرنے کسی انسان کے بس کا روگ نہیں ہے۔جو شخص بھی اس میدان میں قدم رکھنا چاہئے اس کے ذہن میں ایک اجمالی خاکہ ضرور ہونا چاہئے کہ آج جدید سائنسز کے اعتبار سے انسان کہاں کھڑا ہے۔جب انسان کو اپنے مقام کی معرفت حاصل ہوجائے تو وہ قرآن مجید سے بہتر طورپر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس کی مثال ایسے ہے کہ سمندر میں تو بے تحاشا پانی ہے۔آپ اگر پانی لینا چاہتےہیں تو جتنا بڑا کٹورا،کوئی دیگ،دیگچی یا بالٹی آپ کے پاس ہے، اسی کو آپ بھر لیں گے یعنی جتنا آپ کا برتن۔ظرف ہوگا اتنا ہی آپ سمندر سے پانی اخذ کرسکیں گے۔اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہ ہوگا کہ سمندر میں پانی اتنا ہی ہے۔انسانی ذہن کا ظرف علوم سے بنتا ہے۔یہ ظرف آج سےپہلےبہت تنگ تھا۔ایک ہزار سال پہلے کا ظرف ذہنی بہت محدود تھا۔انسانی علوم کے اعتبار سے آج کا ظرف بہت وسیع ہے۔اگر آج آپ کو قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو آپ کو اپنا ظرف اس کے مطابق وسیع کرنا ہوگااور اگر کچھ لوگ ابھی اسی سابق دور میں رہ رہے ہیں تو قرآن حکیم کے مخفی حقائق ان پر منکشف نہیں ہوںگے۔
(نزول قرآن ایک تحقیقی جائزہ کتاب سے ماخوذ)
<[email protected]>