عُود آیا پھر سے آہنگ
نخل کے خاروں میں
ویسے تو تو صیفِ کشمیر ہندؔ کے دستاروں میں ہے
منفر پر آج یکتا وہ برف کے پاروں میں ہے
چہار جانب اوڑنی اوڑھے ہوئے ہیں کوہسار
برف کاہی پیرہن زیبِ تن ساروں میں ہے
گو برف باری کا سماں ہے جادئہ عشرت پیام
ہر قدم ہر گام لیکن آج دُشواروں میں ہے
تشنہ کامی کے سبب تھا تہہ و بالا بدمزاج
عُود آیا پھر سے آہنگ نخل کے خاروں میں ہے
پیڑ پودے پت جھڑ کے باعث دیر سے تھے بے لباس
کیا حیاتِ نوسی آئی پھر سے اشجاروں میں ہے
مؤجزن ہے بادِ مشرق وادیٔ آذرؔ میں آج
چُھپ گیا ہے وائے سورج برف کی غاروں میں ہے
چھیڑ بیٹھی برف جب سے موسم سرما کا ساز
چہل قدمی ہوگئی محدود بازاروں میں ہے
دن میں جب موسم بدلتا ہے گہہ اپنا مزاج
کوہِ ماراں پھر نظر آتا ہے شاہکاروں میں ہے
جب کبھی ہوجائے مطلع شب کی تاریکی میں صاف
گفتگو ہوتی ہے تب پھر چاند اور تاروں میں ہے
ہے مکینِ شہرو گائوں کا سہارا اک کانگڑی
قد و قامت اس کا بالا آج ناداروں میں ہے
ہونے والا ہے لبالب پھر سے دہقاں کا ایاغ
پھر سے ہل بردوش ہوگا صورتاً ہاروں میں ہے
اس نرالے شہر میں ہے نورشاہؔ کا ہست و بُود
ذکر جسکا عشاؔ ق ہوتا روز اخباروں میں ہے
عُشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ چناب ویلی کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
نادان
زمین کو پست، آسمان کو بلند سمجھتے ہو نادان
تم نہ جانے کس سراب میں رہتے ہو نادان
آہ جاتی ہے فلک پر اس زمین کی جب
روتا ہے پھر آسمان، یہ تم بھی دیکھتے ہو نادان
آسمان کے آنسوؤں کو گلے لگاتی ہے زمین
تبھی جا کے چمن کے پھو‘ل تم سجاتے ہو نادان
عرب سے عجم تک ایک برابرہے ہر اک بشر
نیچی نظر سے دیکھنے کی خو‘ اپنا تے ہو نادان
نہیں جانتے ہو کہ مچھر نے ہاتھی کو مارا
غرور میں دوسروں کو کم تر آنکتے ہو نادان
نشہ دولت کا اور تیری زمانے کی دیکھادیکھی
بڑی غفلت سے ہستی ، تم اپنی مٹاتے ہو نادان
ندامت کی دولت جس کسی کے پاس ہے تنہاؔ
ہے وہی انسان ، یہ تم نہیں جانتے ہو نادان
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین کالونی، چھانہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006194749