Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

شیخ عبدالغنی اردو ادب کا روشن مینار تھا! لداخ کا انسائیکلوپیڈیا ہمیشہ کے لئےجُدا

Mir Ajaz
Last updated: August 24, 2024 12:43 am
Mir Ajaz
Share
14 Min Read
SHARE
سبزار احمد بٹ۔کولگام
آج تک اردو دنیا میں جتنے بھی ادیب قلمکار، تواریخ دان، افسانہ نگار اور ناول نگار پیدا ہوئے ہیں ان میں عبدالغنی شیخ لداخی کا نام سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے عبدالغنی شیخ 5 مارچ 1936 میں لہہ(لداخ) میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لداخ کی اپنی ایک تہذیب، تواریخ، ثقافت اور پہچان ہے، لداخ کے اس سپوت عبدالغنی شیخ کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا، ان کی پہلی تحریر  ماہنامہ ’’پیامِ تعلیم ‘‘ میں چھپ گئی۔ ادبی شغف کے علاوہ اداکاری اور کھیل کود میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ،اُنہیں کہانیاں لکھنا بھی اچھا لگتا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ’’لوسر اور آنسو ‘ ،آرزوئیں ‘ اور نوری‘‘ جیسی کہانیاں لکھیں۔آپ کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پروگرام پیش کرتے رہےاور لداخ کی تواریخ کو محفوظ کرنے میں اپنا اہم کردار نبھاتے رہے۔ لداخ کی تاریخ اور تجارتی اہمیت پر بات کرتے ہوئے عبدالغنی شیخ رقمطراز ہیں کہ ’’نہر سویز کے لیے پورٹ جعید جتنی اہمیت رکھتا ہے، اتنی ہی اہمیت لیہہ بھی وسط ایشیا کی تجارتی راستوں کے لیے رکھتا ہے۔ ‘‘ عبدالغنی شیخ کا مزید ماننا ہے کہ تجارتی تبادلوں سے لداخ کی تہذیب کی بنیادی نہ ہل سکیں ،لیکن مغربی تعلیم نے لداخ کی تہذیبوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔یاد رہے کہ عبدالغنی شیخ ایک مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب اور افسانہ نگار بھی ہیں، ان کے ابھی تک چار افسانوں مجموعی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’زوجیلا کے آرپار‘‘1970 میں شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے میں ان کے دس افسانے شامل ہیں اس افسانوی مجموعے میں زوجیلا کے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور پانچ کہانیوں میں ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ’’دوراہا‘‘ ہے جو 1993 میں منظر عام پر آیا ہے، اس میں تئیس افسانے شامل ہیں۔اس افسانوی مجموعے کو کافی سراہا گیا اور اس پر تبصرے بھی کئے گئے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں عام اور بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات کو خوبصورتی کے ساتھ کہانی کا روپ دیا ہے۔ forsaking peradise اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ہے جو سال 2001 میں شائع ہوا ہے ۔دراصل یہ اردو اور لداخی زبان میں لکھے گئے بارہ افسانوں کا انگریزی ترجمہ ہے جو امریکہ کی ایک خاتون نے کیا ہے۔ عبدالغنی شیخ نے اگر چہ اپنے افسانوں میں نصیحت کا پہلو نہیں اپنایا ہے تاہم انہیں انسانی اقدار جیسے محبت، انسان دوستی، ہمدردی اور ایثار پر پورا بھروسہ ہے جو ان کے افسانوں میں خوب جھلکتا ہے۔ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ 2015 میں’’ دو ملک ایک کہانی‘‘ نام سے شائع ہوا، اِس افسانوی مجموعے میں 45 افسانے شامل ہیں جن میں لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ چند افسانے طنز و مزاح پر بھی لکھے گئے ہیں۔اُنہوں نے اپنے افسانوں میں اخلاقی قدریں، سماجی نابرابری، طبقاتی کشمکش، رشوت خوری جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔آپ کی افسانہ نگاری کو دیکھ کر اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے لداخ میں افسانہ نگاری کی جوت کو جلائے رکھا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔اُن کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے راشد سیسوامی رقمطراز ہیں کہ’’بعض مقامات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے چشم دید واقعات کو من و عن تحریر کی شکل دی ہے لیکن ایسی تحریروں میں بھی اخبارات کی رپورٹ کا رنگ نہیں ہوتا۔‘‘ عبدالغنی شیخ کے مختلف افسانوں پر تجزیاتی جائزہ بھی لیا گیا ہے ،عرفان عالم اس حوالے سے لکھتے ہیں ’’دو ملک ایک کہانی رشتوں اور ورثے کی تقسیم کا المیہ،1947 کی ہجرت کے دوران مہاجرین نے اکثر و بیشتر بڑے شہروں میں مکمل سکونت اختیار کی ۔ان کے افسانے جہاندیدہ کا تجزیاتی جائزہ ڈاکٹر الطاف انجم نے لیا ہے جبکہ عرفان عالم نے ان کے ایک اور افسانے دو ملک ایک کہانی کا ہجرت کے اضطراب کا کلامیہ کے نام سے تجزیاتی جائزہ لیا ہے۔ موصوف نے اس افسانے کی تیکنیکی ہیت پر بھی بات کی ہے ۔انہوں نے سفر نامے بھی تخلیق کئے ہیں۔’’سفر نامہ روم و استنبول‘‘ اور ’’سفر نامہ انگلستان اور برازیل ‘‘ آپ کے مشہور سفرنامے ہیں۔عبدالغنی شیخ کو دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے سمناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر تقاریر اور اپنے مضامین پڑھ کر اپنا لوہا منوایا ہے ۔انہوں نے سات قسطوں پر مشتمل ‘’’انجام ‘‘ نام کا ڈرامہ بھی تخلیق کیا ہے۔ اس ڈرامے کے ہر منظر کا جائے وقوعہ لداخ ہی ہے اور اس پورے ڈرامے میں لداخ کا روایتی ماحول دکھانے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔عبدالغنی شیخ کے نام ادبی دنیا کی مشہور ہستیوں نے خطوط بھی لکھے ہیں اور مضامین بھی ۔ان پر لکھے گئے ہیں خطوط لکھنے والوں میں شمیم طارق، ایم عالم، عظیم الدین عظیم، ٹی این راز، حسن ساہو اور عشاق کشتواڑی بھی شامل ہیں۔ ٹی این راز عبدالغنی شیخ کو لکھے گئے خط میں رقمطراز ہیں کہ’’مکرمی شیخ صاحب!آجکل میں قلم، قلمکار اور کتاب نامی مقالہ پڑھ کر آپ کا قلم چومنے کو جی چاہتا ہے، واقعی قابل صد ستائش و تحسین ہے۔‘‘ ڈاکٹر شہاب للت اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ ’’اداکار‘‘ آپ کی حقیقت نگاری پر دال ہے، یہی دیکھ کر حد درجہ طمانیت ہو ئی کہ آپ ابھی تک سرگرم تخلیق ہیں، ورنہ عمر کی تیکھی ڈھلان پر آکر پڑھنے لکھنے سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے ۔‘‘ عبدالغنی شیخ کی تصانیف پر نہ صرف مضامین تبصرے لکھے گئے ہیں بلکہ ان کی شخصیت پر بھی مضامین قلمبند کئے گئے ہیں، ان پر مضامین تحریر کرنے والے بہت سارے لوگوں میں محمد یوسف ٹینگ، راشد عزیز، گلشن آرا، پریمی رومانی، قدوس جاوید، دیپک بدکی،بلراج بخشی، مشتاق احمد وانی، نور شاہ اور آفاق عزیز جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ۔عبدالغنی شیخ نے ’’صنم نربو‘‘ نام کی سوانح حیات بھی تحریر کی ہے، یہ سوانح عمری انہوں نے لداخ کے ایک انجینئر صنم نربو کی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ اُن کی سوانح نگاری پر جواد جالبؔ امینی نے ایک مدلل مضمون بھی تحریر کیا ہے ۔عبدالغنی شیخ کے قلم سے بہترین مضامین بھی نکلے ہیں ان کے چند مشہور مضامین یوں ہیں۔دنیا کے پچاس مشہور ترین ناول، لداخ کا جغرافیائی محل وقوع، تبت میں آباد کشمیری مسلم اسرارالحق مجاز ،لداخ کے بعض عقائد و اوہام وغیرہ دیکھا جائے تو عبدالغنی شیخ نے نثر کی تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ وہ ناول نگاری کرتے ہوئے انہوں نے 1977 میں ’’وہ زمانہ‘‘ اور 1978 میں ’’ دل ہی تو ہے‘‘نام کی بہترین ناولیں لکھی ہیں۔ ناول ’’وہ زمانہ‘‘ کو کشمیر مرکنٹائل سرینگر نے شائع کیا ، جس میں لداخ کی تاریخ کو الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔’’ دل ہی تو ہے‘‘ کو بھی کشمیر مرکنٹائل سرینگر سے شائع کیا، اس ناول کو 1980 میں کلچرل اکادمی جموں وکشمیر کی جانب سے بہترین کتاب کااعزازملا ہے۔ یہ ایک رومانی ناول ہے جس میں حسن وعشق کی داستان پیش ہوئی ہے ۔گویا عبدالغنی شیخ کو ناول نگاری پر مکمل گرفت حاصل تھی۔ ناول ’’وہ زمانہ ‘‘پر جان محمد آزاد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ آپ کا ناولٹ’’ وہ زمانہ‘‘ میں 1947 سے پہلے کے لداخ کی معاشرتی، ثقافتی، اور مجلسی زندگی اور اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو جزئیات، مزاحیہ اور دلکش پیرائے میں پیش کیا گیا ہے ۔‘‘
موصوف کی ایک اور کتاب ’’ اسلام اور سائنس‘‘ 2009 میں شائع ہوئی ۔جس کی پانچ سو کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔ ان کی ایک کتاب’’ قلم قلمکار اور کتاب‘‘ کو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے شائع کیاہے جبکہ ان کی ایک اور کتاب’’لداخ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں‘‘کو نیشنل بک ٹرسٹ نے شائع کیا ہے،جس میں عبدالغنی شیخ نے لداخ کے تاریخی جھروکے، علاقائی خصوصیات، آبادی کھیت، آثارِ قدیمہ، عبادت گاہوں اور حکومتوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ لداخ میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں اور ان کے طبی فوائد پر بھی بات کی گئی ہے دیکھا جائے۔ایک درجن سےزائد کتابوں کے مصنف نے ایک دوردراز اور پسماندہ علاقے میں رہنے کے باوجود اردو کی جو خدمت کی ہے وہ قابل سراہنا ہے۔ ان کی چند تحریرات جیسے ’’ کتابوں کی دنیا ‘‘ اور ’’لداخ کی سیر ‘‘ کو ریاستی حکومت نے 1979ء میں منعقدہ بچوں کے بین الاقوامی صد سالہ میلے میں ایوارڈ سے نوازا ہے۔ کہانی’’ دادی اماں‘‘ کو جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے انگریزی میں ترجمہ کر کے دسویں کے نصابی میں شامل کیا جبکہ ان کے ایک بہترین اور معلوماتی مضمون ’’سلک روٹ ‘‘کو گیارہویں کے اردو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔مہاراشٹر سرکار نے بھی ان کی تحریروں کو نصاب کا حصہ بنایا ہے ۔انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی ایک کہانی ’’آوی لے‘‘ کو بھی ریاستی سکول بورڈ آف ایجوکیشن نے دسویں کے نصاب میں شامل کیا۔ گاندھی جی کی حیات اور فلسفہ پر لکھی گئی ان کی تحریر کو بھی انعام سے نوازہ گیا ہے۔ لداخ کے تہذیب و تمدن پر انہوں نے “لداخ تہذیب و ثقافت “نام کی ایک تصنیف بھی تخلیق کی ہے جسے کریسنٹ پبلیکیشن جموں نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ لداخ، محققوں اور غیر ملکی سیاحوں کی نظر میں، Reflection on ladakh, Tibet and central Asia  اور لداخ کی تاریخ کے اہم گوشے ایسی تصانیف ہیں جو لدا خ کے موضوع پر لکھی ہیں۔’’ لداخ تہذیب و ثقافت ‘‘کے بارے میں عبدالغنی شیخ خود لکھتے ہیں:’’یہ اردو میں لداخ پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو میرے پنتالیس سال کی تحقیق اور ریاضت کا ثمرہ ہے، اس میں لداخ کی تاریخ، ثقافت، تمدن، یادگاروں، اہم مقامات، مذاہب، شخصیات، لوک ادب، زبان اور جنگلی جانوروں کے بارے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔’’لداخ کی تارکے اہم گوشے‘‘ عبدالغنی شیخ کے تحقیقی مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔ راشد عزیر اس کتاب کو جدید دور کی ویڈیو ریلوں سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کتاب کو لداخ کا قاموس قرار دیتے ہیں۔عبدالغنی شیخ کا طرز و تحریر سہل اور عام فہم ہے وہ زندگی کے گوناگوں تجربوں اپنی کہانیوں کے موضوع چن لیتے ہیں اور وہ معمولی چیز یا واقعہ ست شہ پاکر اس کے ارد گرد اپنی کہانی کے تانے بانے بنتے ہیں، ان باتوں کا اظہار کاچواسفندیار خان نے عبدالغنی شیخ کے بارے میں ’’شیخ صاحب سے میری شناسائی ‘‘ نامی مضمون میں کیا ہے۔عبدالغنی شیخ کا کلام اگر چہ اردو میں ہے، تاہم ان کا بیشتر کلام انگریزی، ہندی، ملیالم ،کشمیری بنگالی گجراتی اور تیلگو زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔جس سے انہیں بہت زیادہ شہرت ملی ہے۔عبدالغنی شیخ کی چند کہانیاں ریاست سے باہر کے معتبر رسالوںمیں بھی شائع ہوئیں۔ عبدالغنی شیخ کی شخصیت کے بارے میں بہت سارے ادیبوں اور معتبر قلمکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جن میں راشد سہسوامی، علی باقر، اسداللہ وانی، وحشی سعد اور ابرار رحمانی جیسے لوگ سر فہرست ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عبدالغنی شیخ کے ادبی کارناموں کو ایک چھوٹے سے میں مضمون میں قلمبند کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔گزشتہ روز یعنی20 اگست 2024 کو چمکتا ہوا یہ تارا اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اور پوری اردو دنیا کو داغ مفارقت دے گیا۔ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ کئی بار ان سے بات ہوئی ، ہر بار بہت ہی حلیمی و انکساری سے پیش آتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
رابطہ۔7006738436
[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ہندوستان میںکاروباری اختراع کاروباری رہنماؤں اور کل کے مفکرین کے کندھوں پر :منوج سنہا | جموں و کشمیر تعلیم اور اختراع کا بڑا مرکز بن کر ابھرا لیفٹیننٹ گورنر کا آئی آئی ایم جموں میں اورینٹیشن پروگرام کے اختتامی اجلاس سے خطاب
جموں
ڈی کے جی سڑک پر لینڈ سلائیڈنگ، گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر
پیر پنچال
کویندر گپتا نے بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ حلف اٹھایا کہا لداخ کی مساوی ترقی یقینی بنانے کیلئے مل کرکام کرینگے
جموں
خطہ چناب میں سرگرم ملی ٹینٹ گروہوں اور اُن کے معاون نیٹ ورک کامکمل خاتمہ ضروری ملی ٹینٹ گروپوں کا مکمل صفایا کیا جائیگا | پولیس سربراہ کا ڈوڈہ، کشتواڑ و رام بن میں سیکورٹی صورتحال اور انسداد ملی ٹینسی آپریشنز کا جائزہ
خطہ چناب

Related

کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025
کالممضامین

نظموں کا مجموعہ ’’امن کی تلاش میں‘‘ اجمالی جائزہ

July 18, 2025
کالممضامین

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ؟ ہمارا معاشرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?