بے شک انسان کی زندگی میں ہر رنگ کا امتزاج ہے،جس میں مختلف ادوار کا اختلاط ، میل ،محبت اور اتحاد شامل ہوتا ہے۔ کچھ ان ادوار سے بھر پور استفادہ کرپاتے ہیں اور بعض محروم رہ جاتے ہیں۔چنانچہ انسانی زندگی کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے، جہاں وہ پیارو محبت کے لمحات اپنے والدین اور عزیز و اقارب کے درمیان گزارتا ہےاور یہیں سےاُس کے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، پھر کوئی اسکول جاتا ہے،کوئی کسی اور کام کاج میں لگ جاتا ہے، جہاں مختلف قسم کے بچوں سے اس کاواسطہ پڑتاہےاوراُسے دوسرے طریقے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طر ح ہر انسان مرتے دم تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے اور پھرمعاشرہ کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ظاہر ہے کہ گھریلو تربیت کے بعدمعاشرے کےجس ماحول اور جس شعبے سے منسلک دوسرےلوگوں کے ساتھ اُس کا تعلق رہتا ہے،وہ سب مل کراُس کی شخصیت بنانے و سنوارنے یا بگاڑنےمیں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بچپن میں انسان کے پاس خواہشات اور مستقبل کے منصوبے ہوتے ہیں لیکن جوانی وہ دور ہےجس میں اُسے اُن خواہشات اور منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔اس لئےجو کچھ اُس نے سیکھا ہوتا ہے اور جو وہ کرنا چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔جس سے نہ صرف اُس کی تربیت ،اُس کے علم و ہنر،حاصل کردہ افکار و نظریات کی تشہیر ہوتی ہے بلکہ زندگی کو کس رنگ اور ڈھنگ میں وہ ڈالنا چاہتا ہے،اُسکی کوشش و جستجو کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔کیونکہ دورِ جوانی کی زندگی،نوجوان کی پسنداور ناپسند،فکر خیالات ، دنیا دیکھنے کا نظریہ،آگے بڑھنے کا جنون،قوت و توانیاںاور گرم خون،اُس کے لئے کوئی بھی رُخ اختیار کرنے میں مانع نہیں ہوتیں۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان معاشرے و ملت کا مستقبل کہلاتے ہیں،وہ جس رخ پر چل پڑیں ،ہوائوں کا سینہ چیرتے ہوئےآگے بڑھ سکتے ہیں۔اکثر دیکھنے میںآیاہے کہ نوجوان، بڑی عمر کے لوگوں کے بالمقابل زیادہ مخلص ہوتے ہیںجبکہ بڑی عمر کے زیادہ تر لوگ ہر قدم اپنے مفاد کے پیش نظر ہی اٹھاتے ہیں، اس کے برخلاف نوجوان ذاتی مفاد سے اوپر اُٹھ کراپنی پروا ہ کیے بغیر اقدام کر گزرتے ہیں۔ اخلاص کی حد درجہ زیادتی نوجوانوں کی کمزوری کہیں یا خوبی،جس کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر مختلف طاقتیں، پارٹیاں اور لوگ اُنہیں اپنے اغراض ومقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔آج بھی صورت حال یہی ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ کہیں نوجوانوں کو عقائد کے اعتبار سے گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں غلط تشریح و تعبیر کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہیں طلبہ وطالبات کو گمراہ کیا جا رہا ہے توکہیں ان کو نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کرکے معاشرہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، کہیں انٹرٹینمنٹ اور سماجی روابط کے نام پر اُن کی صلاحیتوں کے رُخ کو موڑا جا رہا ہے توکہیں فیشن اور تہذیب کوجدید دور کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ان حالات میں اور زندگی کے اس خوبصورت دور میں عام طور پر بے مقصد زندگی گزارنے والے پڑھے لکھے نوجوان طلبہ و طالبات گمراہی کو بہ آسانی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت سے بخوبی واقف ہوں اور اگر وہ خودحقیقت ذات اور حقیقت خودی کی جانب پیش رفت نہ کریں تو پھر مخصوص حالات کے پیش نظر باشعور، سنجیدہ، مخلص افراد و گروہ کو چاہیے کہ نوجوان طلبہ و طالبات کے سامنے ان کی حیثیت واضح کریں۔جن گمراہیوں اور لایعنی و بے مقصد کاموں میں وہ مصروف عمل ہیں ،ان سے ان کو متنبہ کریں۔ ہر پڑھے لکھے یا غیر پڑھے لکھے نوجوان کو یہ بات ذہن نشین کروانی چاہئے کہ ان کی صلاحیتوں پر اُن کے معاشرےوقوم کا بھی حق ہے، لہٰذاہمارے نوجوان اپنی توانائیوں اور جذبات و احساسات کا غلط رُخ اختیار نہ کرلیںاور اپنی عملی زندگی میں محض اپنے مستقبل کو تابناک کرنے کی ہی جدوجہد شامل نہ رہیں بلکہ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کو بھی مد نظر رکھیں۔