ایک اخباری اطلاع کے مطابق جموں و کشمیر کی انتظامیہ نےسرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی بگڑتی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے کچھ سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے،تاکہ عوامی حلقوں کی شکایتوں کا ازالہ ہوسکے۔ایڈمنسٹریٹو سیکریٹری ہیلتھ اینڈمیڈیکل ایجوکیشن سید عابد شاہ کے مطابق اب ایسے ڈاکٹروں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا جوسرکاری طبی مراکز پر اپنی ڈیوٹی کو نظر انداز کرکے پرائیویٹ پریکٹس پر زیادہ توجہ دیتے ہیںاور سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو بالائے طاق رکھتے ہیں ۔بقول اُن کے جو کوئی ڈاکٹر اس غیر ذمہ دارانہ فعل میں ملوث پایا جائے گا ،اُسے نوکری تک سے برخواست کیا جائے گا۔خیر!حق بات تو یہ ہے کہ غریب، ناداراورمتوسط طبقوں سے وابستہ وادیٔ کشمیر کی کثیر آبادی کے علاج و معالجہ کےلئے سرکاری ہسپتال ، ڈسپنسریاں اور چھوٹے چھوٹے سرکاری طبی مراکز واقعی واحد اُمید اور سہار ا ہیں،جہاں انہیں طبی سہولیات فراہم ہوتی ہیں۔شہر کے گنجان آباد علاقے ہوں ، قصبے ہوں یا دور دراز علاقہ جات ،وہاں پر قائم سرکاری صحت مراکز کا اصل مقصدیہی ہےکہ لوگوں کو بروقت ابتدائی طبی سہولت فراہم ہو۔اس لئے جب بھی ان علاقہ جات میں کوئی فرد بیمار پڑتا ہے یا کسی چھوٹے موٹے حادثے کا شکار ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے وہ انہی طبی مراکز کا رُخ اختیار کرلیتا ہے ۔لیکن ان طبی مراکز کے متعلق جہاں تک عوامی حلقوں کا کہنا ہے تو جس مقصد کے تحت ان طبی مراکز کا وجود عمل میں لایا گیا تھا ،وہ یکسر فوت ہوچکا ہے۔اگرچہ پچھلے تین چار عشروں کے دوران یہاں کی حکومتوں کی طرف سے ان طبی مراکز کے قیام میں کافی توسیع ہوتی رہی ،مگر مجموعی طور پر ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔یہ طبی مراکز ،جن میں بعض بڑی بڑی ڈسپنسریاں بھی شامل ہیں،میں ناتجربہ کار و غیر ذمہ دار عملے،ادویات و دوسرے طبی اوزار کی کمی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ خصوصاً غریب،لاچار اور مستحق مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے نام پراُن کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑکررہے ہیں۔بیشترسرکاری ڈسپنسریوں اور چھوٹے طبی مراکز پر تعینات سرکاری طبی عملہ زبردست بد دیانتی میں مبتلا ہوچکا ہے ۔دیہی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے صحت مراکز سے لے کر سرینگر شہر کی بعض اہم ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں تک کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ اول تو وہاں ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے اور دوسرا جو نیم طبی عملہ موجود ہوتا ہے ،انہوں نے اِن اداروں کو کاروباری اڈوں اور عیش کوشی کےٹھکانوں میں تبدیل کرکے رکھدیا ہے۔ مریضوں کو ان اداروں سے دوائی کی عدم دستیابی معمول بن چکی ہے ،حالانکہ یہ بات بالکل طے ہے کہ ان سرکاری ڈسپنسریوں اور چھوٹے طبی مراکز میں عام طور پر ایسے ہی لوگ علاج و معالجہ کے لئے جاتے ہیں جو مالی استطاعت نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج نہیں کراسکتے ہیں۔ چنانچہ ان سرکاری صحت اداروں سے زیادہ تر مریضوںکو جو کچھ حاصل ہوتا ہے، وہ جونیئر اور ناتجربہ کار طبی عملے کے ناقص مشورے ، بازار سے ادویات لانے اور ٹیسٹ کروانے کی لسٹ سمیت نیم طبی عملے کا دھونس ،دبائو ،اُلٹی سیدھی باتیں اور باہر جانے کا راستہ۔اگرچہ اس ساری صورت حال سے سرکاری طبی اداروں کے اعلیٰ عہدیدار ،بڑے بڑے ڈاکٹراور میڈیکل آفیسر بھی واقف ہیں لیکن پھربھی مصلحتوں اور مفادات کے تحت خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان طبی مراکز میں مریضوں کے لئے مخصوص محکمہ صحت کا لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کے ادویات اور دوسرا طبی سامان بھی بدعنوان عناصر کی نذر ہورہا ہےاور غریب و لاچار مریض بَس دیکھتا رہ جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ان طبی مراکزکو جہاں محکمہ صحت کی طرف سے وسیع پیمانے پر ادویات اور دوسرا سازو سامان فراہم ہورہا ہے وہیںان طبی اداروں کی کارکردگی کوئی سدھار نہیں آرہا ہے،جوکہ یقیناً ایک قابل تشویش امر ہےاور جو رپورٹیں ان صحت مراکز کے بارے میں شائع ہوتی رہتی ہیں ،وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں سدھار لانے کی اشد ضرورت ہے۔عوام کو علاج و معالجہ کے لئے بہتر سہولتیں فراہم کرنا ہر اچھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ،اس لئے سرکاری ہسپتالوں ،بڑی بڑی ڈسپنسریوں اور چھوٹے چھوٹے طبی مراکز کے حالات بہتر بنانے اور ان میں دَر آچکی بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کو دور کرنا لازمی ہے۔ سیکریٹری صحت و طبی تعلیم کے اس تازہ بیان کےمطابق اب سرکاری انتظامیہ جو کوئی بھی قدم اٹھانے والی ہے، اُس پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،کیونکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات سامنے آچکے ہیں ،جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوسکا۔
1940-2024فاروق نازکی
صحت مراکز میں بہتری لانے کی ضرورت
