ابو نعمان محمد اشرف بن سلام
خالق کائنات کی نعمتوں کا شمار اسی طرح محال ہے جیسے سورج کی روشنی میں ستارے گننا۔اللہ تعالیٰ نے جو سب سے بڑا احسان دونوں عالموں پر فرمایا وہ اپنے محبوب امام الا نبیاء، سرور دوعالم، فخرموجود حضرت احمد مجتبیٰ محمدرسول اللہ ﷺ کو عالم دنیا میں مبعوث فرما کر کیا ہے۔
چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کی دوطاقتیںتھیں رومن امپائر اور پرشین امپائر تھیں۔ دونوں میں زر و دولت اور تمدن عرو ج پر تھا لیکن اخلاقی حالت ناگفتہ اورقلب میں ہر قسم کی بیماریاں پھیلی ہوئی تھیں اور انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا تھا ، انسان موجود تھا لیکن شعور نہیں تھا ۔اور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا تھا۔اس دور میں عرب شاعری ، آرٹ اور تجارت طاق تھا اور چند اخلاقی جوہر بھی انکے اندر موجود تھے جن میں مہمان نوازی، بہادری ، سپہ گری،تھی ۔لیکن اس سے آگے چلئے تویہ لوگ بالکل مختلف تھے ۔بے حیائی اور جزو عبادت ،شراب کی محفل جمی تو شام کی صبح ہوگئی۔ جوئے کی بازی لگی تو جسم سے کپڑے تک اتر گئے اور خون کے انتقام در انتقام کا سلسلہ جو چلا تو صدی کی چھٹی ہوگئی۔ یہ تھے چھٹی صدی کے آخری تہائی میں عرب کے حالات ۔ اور اسی عرب کا مشہور اور مقدس شہر مکہ جس میں رحمت الہی کے فیصلے کے مطابق صبح صادق کے وقت قبل از طلوع آفتاب ۱۲ ربیع اوّل570ء میں پیر کی وہ مبارک صبح جب وہ نور افلاک ، باعث تخلیق آدم ،امام الا نبیاء، سرور دوعالم ، فخرموجود ،حضرت احمد مجتبیٰ محمدمصطفےﷺ نے اپنے نورانی قددم سے اس ظلمت کدہُ عالم کو منور فرمایا۔ اس نور نبوتﷺ نے جب اُجالا شروع کیا ہے تو دنیا طرح طرح کی تاریکیوں اور گہرے اندھیروں میں اٹی ہوئی تھی۔ جہالت نے ایک خدا کی خدائی میں کتنوں کو ساجھے دار بنا دیا تھاا سکا شمار نہیں۔ خاتم النبیینﷺ نے اپنی عظیم الشان اصلاحات کا سنگ بنیاد عقیدہ ٔتوحید پر رکھا۔ آپﷺ نے بندہ اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کر دیا اور درمیانی واسطوں کو مٹایا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو وجود دینے اور اس کے رزق کو مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو انوارِ صمدیت سے بارگاہ خداوندی میں حقیقت محمدیﷺ کو ظاہر کیا پھر اللہ تعالیٰ نے حقیقت محمدیﷺسے عالم پست وبالا کو اپنے حکم کے مطابق جیسا کہ اس علم اور ارادئہ قدیم میں طے ہوچکا تھا پیدا کیا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نبوت کا علم عطا کیا اور آپﷺ کی رسالت کی بشارت دی ۔اس وقت کہ جب آدم ؑ روح اور جسم کے درمیان تھے۔پھر آپﷺ سے ارواح کے چسثمے جاری ہوئے پھر آپﷺکی حقیقت نے عالم ِبالا کی مخلوق (ملائکہ)میں اعلیٰ درجے کا ظہور فرمایا۔ آپﷺ فیض رسانی کمالات کے اعتبار سے کا انبیاء اور مقربین بارگاہ الٰہی کیلئے شیریں چشمہ تھے۔ آپﷺ اپنی پیدائش کے لحاظ سے تمام اجناس کی جنس عالی ہیں۔(جوہر ہونے کے اعتبار سے اصل کائنات ہیں ،اس سے اوپر کوئی اور کوئی چیز نہیں ساری کائنات اس کے نیچے ہے)اور جمیع موجودات اور انسانوں کے لئے بڑے باپ(اصل کائنات) ہیں اس لئے کہ جمیع کائنات اور جمیع انسان آپﷺ کے کو سے پید اکئے گئے ہیں۔ ’’مقام او ادنی‘‘پر محب اور محبوب کے درمیان توحید و رسالت اور معبود یت و عبدیت کاکا فرق برقرار رہا۔کاف اور نون مل کربھی جداتھے اور جدا ہوکر بھی ملے ہوئے تھی۔ نون کاف نہ بنا اور کاف نون نہ بنا۔خدا خدا رہا اور مصطفیﷺ ،مصطفیﷺ رہے۔
امام قسطلانی ؒ حقیقت محمدیﷺ کی تخلیق کے بارے میں لکھتے ہیںکہتم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو۔ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کیا جانئے کیا ہو۔ جب’کن‘نہ تھا تو کچھ ظاہر نہ تھا جب کچھ ظاہر نہ تھا تو کچھ پتہ ہی نہ تھا۔پہلا ظہور جس نے خدا کی خبر دی مصطفیﷺ کی ذات تھی۔خدا کو تو فقط آپﷺ نے ہی دیکھا ،اسے تو جبریل امین ؑ جو کہ اس کلام لے کر نیچے آتے تھے انہوں نے بھی نہ دیکھا تھا،ہم نے تو صرف حضورﷺ کو دیکھا اور خدا کو جانا بھی مصطفیﷺ کے ذریعے اور مانا بھی مصطفیﷺ کے ذریعے ۔ظاہر کرنے والا پہلے بھی مخفی تھا اور اب بھی مخفی ہے ۔
’’بیت‘‘ محمدؐ کہ بے دعوی تخت وتاج زشاہان آفاق ستد خراج
چہ گویم زباغ جمالش خبرچہ جویم زبحر کمالش خبر
کہ خورشید برگ زبستان اوست فلک یک حبابے زعمان اوست
( محمدؐنے کسی تخت وتاج کے دعوی کے بغیر دنیا بھر کے بادشاہوں سے خراج وصول کیا ۔میں حضور کے باغ جمال کا حال کیا بتاوئں۔حضورؐ کے بحر کمال کی کیا بات سنائو ں۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آفتاب حضور ؐ کے باغ کا ایک پتا ہے۔ اور آسمان حضورﷺ کے سمندر کا ایک بلبلا ہے۔)
ہر صبح وشام مدینہ میں حضورؐ کے فیض کے حصول کی خاطر انوار خورشید لوٹنے والوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ ہر شام حضورؐ کے فراق میں خون جگر پینے والوں کے جوش سے کوچہ وبازار شفق آثار ہوتے ہیں۔
مولد النبیﷺ پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب ‘‘فیوض الحرمین’’ میں تحریر فرمایا ہے کہ جس مقدس مکان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، تاریخ اسلام میں اس مقام کا نام ‘‘مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم’’ (نبی کی پیدائش کی جگہ) ہے، یہ بہت ہی متبرک مقام ہے۔ سلاطینِ اسلام نے اس مبارک یادگار پر بہت ہی شاندار عمارت بنا دی تھی، جہاں اہل حرمین شریفین اور تمام دنیا سے آنے والے مسلمان دن رات محفل میلاد شریف منعقد کرتے اور صلوٰۃ و سلام پڑھتے رہتے تھے۔ چنانچہ میں ایک مرتبہ اس محفل میلاد شریف میں حاضر ہوا، جو مکہ مکرمہ میں بارہویں ربیع الاول کو ‘‘مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم’’ میں منعقد ہوئی تھی جس وقت ولادت کا ذکر پڑھا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی اس مجلس سے کچھ انوار بلند ہوئے، میں نے ان انوار پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمت ِالٰہی اور ان فرشتوں کے انوار تھے جو ایسی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔ میلادالنبیﷺ پر ہزاروں نعت لکھے گئے ۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیکر موجودہ دور تک اور روز آخر تک لکھتے رہے گئے۔
حضرت حبیب بن ابی ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ شاعرِ دربارِ رسالت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائے:ترجمعہ۔
میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ رب العزت کے برگزیدہ رسول ہیں اور بے شک ابویحییٰ (حضرت زکریا علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام دونوں آپﷺ کے دین میں مقبول عمل ہیں اور حضرت ہود علیہ السلام جب اپنی قوم میں کھڑے ہوتے تو فرماتے: اللہ کی ذات کی قسم! وہ نبی آخرالزماں ﷺ ان میں ہیں اور وہ عدل و انصاف کرنے والے ہیں۔(ابن ابی شبہ)
حضرت علمدار کشمیرؒ نے خوب فرمایا ۔
پأری پأری لگی زِتّس پیّغمبرس ٭ یَسّ سندس دَورَ س رَحمت چھے جأری ۔
کألی ییلہ حَق لِگہ روِزمحشرسَ٭ تسّ کنُ وومید وِارآسن سأری)
حدیث میں آیا ہے :۔ لونڈی ‘‘ثویبہ’’ خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور ‘‘ابو لہب’’ کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے ‘‘ثویبہ ’’ کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال پوچھا، تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ (کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ ‘‘ثویبہ’’ کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہوں۔( بخاری ج ۲ باب وامھاتکم التی ارضعنکم)اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ رسول رحمتﷺکی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، امام الانبیاﷺ کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
جب یہ رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے توآپﷺنے دنیا کے ہاتھ میں ایک مکمل ہدایت اور جامع و مفصل دستور العمل قرآن کریم کی صورت میںعطا کیا۔ آپؐ ان سب کی مشق سالہا سال تک اپنے سامنے کرا کر گئے اور اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی ایک کثیر جماعت صالحین چھوڑی اور دس لاکھ مربع میل پر آپﷺ نے اپنی عادلانہ حکومت کا نقش قائم کر دیا۔ رسول رحمت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے جو کچھ فرمایا آج ہم وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مثلاً جب قاتل کو یہ علم نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ علم نہ ہوگا کہ مجھے کیوں قتل کیاگیا۔ جب کام نا اہلوں کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔فاسق و فاجر لوگ قوم کے سردار بنیں گے، آدمی کے شر کے خوف سے اس کی عزت کی جائے، مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ ہوگا، دُنیا میں اہل ایمان کا جینا دوبھر ہوگا۔ یہ سب آج کے دور کی ٹھوس حقیقتیں ہیں۔
میلاد النبی ؐ جو اکثر مسلمان مناتے ہیں۔ یہ دن مسلمان ہر سال پیغمبراسلام ﷺ کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ ربیع الاول کے مہینہ میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محفلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی رہتا ہیں، لیکن ماہِ ربیع الاول حاص طور پرپوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ حقاکہ میلاد شریف کو موجودہ شکل میں منانے کا آغاز ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں اِربل کے حکمران سلطان صلاح الدین ابوبیؒ کے بہنوئی سلطان مظفر ؒکے دور میں ہوا۔ جن کا شمار عظیم سلاطین اور فیاض رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ اور بہت سے کارناموں کا سہرا اُن کے سر ہے ۔ انکی یادگاروں میں جامع مظفری سر فہرست ہے جس کی تعمیر قاسیون کے قریب ان کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ابن کثیرؒ سلطان مظفر ؒ کے بارے میں بیان کرتا ہے۔سلطان مظفر ؒ کا معمول تھا کہ وہ میلادنبی ﷺ کا اہتمام بڑے تزک وا حتشام سے کرتا اور اس سلسلے میں وہ شاندار جشن کا انتظام کرتا تھا۔وہ پاک دل روشن ضمیر بہادر ، داناعالم اور منصف مزاج حکمران تھا۔ سلطان مظفر ؒکی وفات 630ھ میں ہوئی۔سلطان کا پورا نام ابوسید کوکبری ابن زین الدین علی بن بکتکین بن محمدؒ تھا۔ سبط ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’’مراۃالزمان‘‘میں لکھا ہے کہ سلطان مظفرؒ کی منعقد کی گئی محفل میلاد میں عالی مرتبہ علمائے کرام اور صوفیاء کومدعو کیا جاتا اور انہیں شاہی خلعتوں اور دیگر انعام واکرام سے نوازا جاتا۔
میلاد النبیﷺ کا عقیدہ رکھنے والے اورمیلاد کے جلوس کااہتمام کرنے والوں سے میری گذارش ہے کہ ہم رسول رحمتﷺ سے اپنی محبت وعقیدت کا مظاہرہ کر تے ہیں میلاد کی خوشیوں کو جزوایمان سمجھیں ۔یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے ،مگر انہیں اس کے تقاضوں کوبھی بہرحال مدنظر رکھنا چایئے اور ہمیں کما حقہ بارگاہ رسول ﷺ کی تعظیم کابھی خیال رکھنا چایئے۔لیکن فی زمانہ بعض مقامات پر جاہل اور مقام وتعظیم رسالت سے بے خبر لوگ جشن میلاد کو گونا گوں منکرات،بدعات اور محرمات سے ملوث کرکے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے ۔یہ سب انتہائی قابل افسوس ہے۔اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلاف ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ منع کرنے والے کو میلادالنبیﷺ کا منکر ٹھہرا کر ان قابل اصلاح امور کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ۔ان نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سرور دوعالم ﷺ کے صدقہ میں ہم سب کی مغفرت فرما ۔بیماروں کو شفادے اور ہماری ہر نیک آرزو کو پورا فرمادے اور وادی کشمیر کے تمام لوگوں کو ہر پرشانیوںاور مصبتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
رابطہ۔ اوم پورہ بڈگام فون نمبر۔9419500008
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)