رشید پروین، ؔ سوپور
یوم آزادی پر وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں یہ اہم بات کی ہے کہ ہمارا ملک بہت جلد بلکہ مستقبل قریب میں دنیا کی ایک بڑی معیشت اور قوت بن کر دنیا کے نقشے پر موجود ہوگا ،امن و شانتی کا دیش ہوگا اور یہ کہ اس ملک کا تنوع بھی بر قرار رہے گا جس کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ تمام دیش واسیوں کے لئے ترقی کے یکساں مواقع میسر رہیں گے اور کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیں ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ یہاں کنبہ پروری رشوت اور خوشآمد جیسی منفی روایات ہیںجو ترقی کی راہ میں زبردست اڑچنیں ہیں، ان میں سب سے بڑی اڑچن کا ذکر نہیں جو عدم مساوات اور عدم انصاف کی دیوار ہے۔اپنے تمام تر مادنی وسائل کے باوجود کوئی بھی ملک اور معاشرہ ترقی پذیر نہیں ہوتا جب تک نہ وہاں عدل اور انصاف یکساں طور پر میسر ہو۔ بہرحال امید یہی کی جاسکتی ہے کہ اپنے خوابوں کے سماج کی تعبیر کے لئے وہ کوشاں رہیں گے اور یہاں اپنے ہاں لیفٹیننٹ گورنر نے بھی بخشی سٹیڈیم میں عوام کے جمِ غفیر سے مدتوں بعد اپنے پیغام میں تعمیر و ترقی اور امن کا ذکر کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ کشمیر کی اضطرابی اور انتشاری کیفیات قصۂ پارینہ ہوچکی ہیں اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے جس میں وادی کی شان رفتہ اور وہی فضائیں پھر ایک بار لوٹ کر آنے والی ہیں جہاں ا من و چین کی گھٹائیں ہر سو نظر آئیں گی ، جی 20 اس راہ کا وہ سنگ میل ٹھہرا جس کی طرف ہم گامزن ہیں ، ریکارڈ توڈ سیاحوں کی آمد اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ کشمیر اور یہ شورش زدہ وادی اپنے اصل اقدار کی منزلوںکی طرف رواں دواں ہے جس میں بھائی چارہ ، اخوت ، انصاف پسندی اور انسان دوستی کی خوشبوئیں یہاں کی ہواؤں اور فضاؤںکا طرہ ٔامتیاز رہا ہے۔
کس فرد کی یہ آرزو نہیں ہوگی کہ اس کا معاشرہ اور اس کا سماج واقعی ایسا ہو؟ لیکن عملی طور پر اس منزل تک پہنچنے کے لئے چندمراحل کا طے ہونا ضروری ہے اور ان مراحل کو پار کئے بغیر کبھی دنیا کے کسی بھی گوشے میں ایسا معاشرہ تعمیر نہیں ہوسکا ہے جس سے ایک فلاحی اور انسانی اقدار پر مبنی سماج کہا جاسکتا ہو ۔ ایسے سماج کی تشکیل دو پہلوؤں سے اپنی اٹھان شروع کرتی ہے ، ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ داخلی یہ کہ انسان کے اندر ہی شعور کا انقلاب پیدا کیا جاسکے اور خارجی یہ کہ جوا فراد انسانی اقدار کی پامالی اور انسانی معاشرے اور سماج کے طے شدہ حدود کو توڑنے کی جسارت بھی کریں تو ان کے لئے سخت سزائیں ہوں اور یہاں عدل و انصاف سماج کے ہر شہری کے لئے یکساں ہو۔ظاہر ہے کہ پہلا پہلو عوام کی ذہن سازی سے جڑا ہے۔ ملک اور قوم کی ذہن سازی جوکبھی سالہا سال میں ہوتی تھی بلکہ اس کے لئے طویل مدت کی ضرورت ہوتی تھی ،اب نئی ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات نے ان معاملات کو اتنی آسانی بخشی ہے کہ لمحات میں سب کچھ بدل جاتا ہے اور خصو صاً سوشل میڈیا نے جو انقلاب پیدا کیا ہے اور فاصلوں کو جس طرح سمیٹ لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ان آسانیوں نے انسانی ذہن کو غیر شعوری طور پر اپنا یر غمال اور اپنی سوچوں کا پابند بنا نے میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں اور یہ اس کا اندرونی یا داخلی انقلاب ہے۔خارجی انقلاب یہی ہے کہ سماج کا کوئی بھی فرد آئین اور قانون سے بالادست نہ ہو ۔
پچھلی دہائیوں میںمیڈیا کے تیز دھار ہتھیار سے کشمیری عوام کی شکل و صورت بھی سارے دیش میںجس طرح اجاگر ہوئی ہے وہ ڈراکیولا اور کسی مہیب دیو کی خوفناک اور گھناونی صورت سے نہ صرف مشابہت رکھتی ہے بلکہ زمینی سطح پر ملک کے اکثریتی فرقے کی نگاہوں میں اس سے بھی کریہہ اور قابل نفرت ہوچکی ہے ،بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مسلسل پروپگنڈا کا نتیجہ ہی ہے کہ باہری دنیا کوہر کشمیری فرد دہشت پسند ،جنونی، فرقہ پرست ا ور خونخوار نظر آنے لگا ہے جومعصوم اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں لذت حاصل کرتا ہے۔ یہ تاثر اب ایک مستقل پہچان ہوچکی ہے۔
امن اور ترقی کے متلاشی اور ایک بہتر معاشرے کی تعمیر اور جستجو کرنے والے ارباب اقتدار کو سب سے پہلے اس سا رے دیش میں منفی پروپگنڈے کو سختی سے واچ کرنا ہوگا بلکہ کچل دینا ہوگا جو فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کے شعلوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیاسی غیر یقینیت کی وجہ سے ۱۹۴۷ سے ہی کشمیری مسلم اکثریت انتشار ، اضطراب اور عذاب مسلسل میں مبتلا رہی ہے ۔اس کے باوجود یہاں آج تک کی تاریخ تک کسی ایک بھی ہندو مسلم فساد کا ریکارڈ موجود نہیں لیکن حقائق کے بر عکس جو کہانیاں گڑھی گئیں ،تحقیق کی روشنی میں ان کا کوئی وجود نہیں ۔ایسی کہانیوں کے نتیجے میں اب بھی اور ابھی تک کشمیری نوجوان ، طلبا اور طالبات کے علاوہ وہ بڑا طبقہ جو ملک کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں پھیری لگا کر روٹی روزی کی تلاش کیا کرتے تھے ، اپنے لئے یہ بڑی زمین تنگ محسوس کرتے ہیں ، انہی افسانوں کی بنیاد پر یہ متعصب لوگ دہشت پسند وں، فرقہ پسندوں،اذیت پسندوں اور مذہبی جنونی لوگوں کے ذہنی تسکین کا ساماں پیدا کرتے ہیں۔
لال قلعے اور بخشی سٹیڈیم سے ہونے والی تقاریر سے ظاہر ہے کہ پرائم منسٹر نریندر مودی اور ہمارے گورنر صاحب دونوں کی خواہش امن و شانتی اور ایک عمدہ مثالی معاشرے کی جستجو ہے تو اس پر غور کرنا لازمی ہوگا اور ایسے اقدامات لازمی بن جاتے ہیں جو اس ملک کے آئین کا سر مایہ ہیں اور جس میں سب کے لئے ، بغیر کسی رنگ و نسل اور مذہب کے انصاف اور مساوات موجود ہیں۔کشمیر سے متعلق یہ بات اہم ہے کہ صدیوں سے ان لوگوں نے بار بار اپنی امن پسندی ، انسان دوستی ، اخوت اور بھائی چارے کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ہماری پنڈت برادری۹۰ کی دہائی سے ملک کے دوسرے حصوں میں جابسی ہے لیکن آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہندو برادری کی کشمیر میں موجود ہے ، جو بلا کسی خوف و خطر کے زندگی گذار رہی ہے ۔ اب ان نئے حالات میں یقینی طور پر جہاں اس وقت امن اور سکون بظاہر ہر سو نظر آتا ہے اور اس دعوے کی دلیل کے طور پر بھی یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ ہندو برادری کو واپس کشمیر لایا جائے ، جہاں وہ اپنے گھروں میں پھر ایک بار امن و شانتی کے ساتھ اپنے مسلم بھائیوں اور مسلم برادری کے ساتھ مل جل کر رہنا شروع کردیں ، میں یہ اس لئے بھی لکھ رہا ہوں کہ اس برادری کی دوری ان فسانوں کو جنم دیتی ہے جو انسانی اقداراور کشمیری امن پسندی اور بھائی چارے سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے افسانوں پرمبنی فلموں سے اتنے بڑے دیش میں ایک منفی طرح کی ذہن سازی ہوتی ہے جو کشمیری عوام،ہاں کے نوجوانوں اور طلبا و طالبات کو سارے دیش میں نہ صرف خطرات سے دوچار کرتی ہے بلکہ ان کے اصل ، بہتر اور صاف و شفاف کردار کو مسخ کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہی ذہن سازی تو وہ شعوری انقلاب ہوتا ہے جو سماج یا معاشرے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
یوم آزادی پر لال قلعے سے اور یہاں بخشی سٹیڈیم سے ملک کی اقتدار اعلیٰ یہ پیغام دے چکی ہے کہ بھارت ایک مہان دیش کی صورت دنیا کے نقشے پر پوری قوت اور شان و شوکت کے ساتھ ابھرنے والا ہے۔ اپنی آبادی اور ریسورسز کی بِنا پر ایسا کہنا اور سوچنا کوئی غلط بات نہیں اوراس خواب کی تعبیر میں بھی ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے لیکن یقینی طور پر عملی اور زمینی سطح پر اس خواب کی تعبیر کے لئے ہمیں دل و دماغ کے کواڈ کھولنے پڑیں گے،اپنی اسی گنگا جمنی تہذیب کی طرف لوٹنا ہوگا جو کثرت میں وحدت کی قائل ہو ، کیونکہ ایک پوری قوت اور تیز رفتار ترقی کی ضمانت ہی وہاں سے ملتی ہیں جہاں کھلے معاشرے ہوں اور جہاں ہر قسم کی ہواؤں ، ہر رنگ کی فضاؤں اور ہر طرح کی گھٹاؤں کو دھرتی پر بارشیں برسانے کے مواقع ہوں تاکہ دھرتی سیراب ہوکر گلستانوں کو جنم دینے کے لئے ذرخیزیت سے مالا مال ہو۔
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیںکیاجاناچاہئے۔)