شبیر ابن یوسف
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے پیر کو شیکھر سماگم کے افتتاحی اجلاس میں کہا ’’ہڑتالوں، سکولوں کے کھولنے اور تشدد کے بارے میں کیلنڈر پاکستان سے آتا تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آٹھ سال پہلے دس اور گیارہ سال کے بچے سڑکوں پر لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرتے تھے۔ اب جموں و کشمیر انتظامیہ سکولوں اور کالجوں کے بارے میں کیلنڈر تیار کرتی ہے جس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کاروبار بھی معمول کے مطابق چلتا ہے اوریہاں کی کاروباری برادری مزید ایسے احکامات کی پیروی نہیں کر رہی ہے‘‘۔اُن کا مزید کہناتھا’’چاربرسوںمیں ہم نے اتنا فاصلہ طے کیا ہے جو لوگوں کیلئے ناقابل تصور تھا اور ہم نے جموں و کشمیر میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں اگلے 25 برسوںکا روڈ میپ بنایا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اگلے 25 سال کیلئے جموںوکشمیرکے لئے ایک روڈ میپ ہے اور تنازعات پر پلنے والے افراد اگست 2019 کے بعد وادی کی صورتحال سے خوش نہیں ہیں جبکہ پہلے سات مہینوں میں 1.27 کروڑ سیاح پہلے ہی خطے کا دورہ کر چکے ہیں۔ایل جی کامزید کہناتھا’’استحصال کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ کشمیر میں ’رہبر‘ (رہنما) اور ’رہزن‘ (جو لوٹ مار کرے) میں فرق کرنا مشکل ہوچکاتھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ سیاحت نے کشمیر کی معیشت میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ پیغام پورے ملک میں چلا گیا ہے کہ جموں و کشمیر دیکھنے کے لائق ہے۔ پچھلے سال 1.88 کروڑ سیاح بشمول وشنو دیوی اور امرناتھ یاتری آئے تھے اور اس سال جولائی تک یہ تعداد 1.27 کروڑ ہے۔کشمیر کے ادیبوں کو کتابوں سے ہٹائے جانے پر انہوں نے کہا کہ وہ مصنف نہیں تھے۔ایل جی کا کہناتھا’’وہ زہر اگلتے تھے۔ انہوں نے یہاں کا نصاب ایسا بنایا تھا کہ نوجوان تباہ ہو جائیں۔ بچوں میں سائنسی مزاج کیسے پیدا کیا جائے؟ ہمارے محکمہ تعلیم نے قومی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کیلئے سخت محنت کی ہے‘‘۔
یہاں ایک بند باب سے مراد پاکستان کے پروردہ علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے ہڑتال کال ہے جو یہ لوگ تاریخی طور پر گزشتہ تین دہائیوں سے دیتے آرہے تھے جس سے کشمیر کی معیشت کوبے پناہ نقصان پہنچا۔ہڑتال کے دوران کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہتا تھا اور لوگوں کو گھر کے اندر رہنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ہڑتال کے کیلنڈر پاکستان کے مختلف پروردہ علیحدگی پسند گروپ جاری کرتے تھے۔ یہ کیلنڈر عام طور پر ان تاریخوں کا خاکہ پیش کرتے ہیں جن پر ہڑتال کرنا ہوتی تھی اور ان میں مظاہرین کیلئے دیگر ہدایات یا رہنما خطوط بھی شامل ہوتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہڑتالوں سے کشمیر میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں پر نمایاں معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوئے، کیونکہ ان ہڑتالوں کے دوران کاروبار کو نقصان ہوا، اور معمول کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔کشمیر میں مسلسل ہڑتالوں اور بندوں کا خطے میں تعلیم پر خاصا اثر پڑا ہے۔ جب پاکستان کے پروردہ علیحدگی پسند گروپ یا دیگر تنظیمیں ہڑتالوں کاکال دیتی تھیںتو وہ اکثر تعلیمی اداروں سمیت کاروبار کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ نتیجے کے طور پر ان ہڑتالوں کے دوران سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند رہیں، جس سے تعلیمی کیلنڈر میں خلل پڑا۔
ہڑتالوں کی وجہ سے تعلیمی نقصان
تعلیمی رکاوٹیں:۔تعلیمی اداروں کی بار بار بندش نے باقاعدہ تعلیمی شیڈول میں خلل ڈالا جس کی وجہ سے کلاسز، امتحانات اور اہم سیکھنے کے مواقع چھوٹ گئے۔ اس کے طلباء کی تعلیمی ترقی اور کارکردگی پر طویل مدتی نتائج ہو سکتے ہیں۔
لرننگ گیپ:۔مسلسل رکاوٹوں نے سیکھنے میں خلاء پیدا کیا، کیونکہ طلباء اہم تعلیمی مواد اور کلاس روم کے تعاملات سے محروم رہتے ہیں۔ اس نے ان کے مجموعی سیکھنے کے نتائج اور نصاب کے ساتھ چلنے کی صلاحیت کو متاثر کیا۔
امتحان کی تیاری:۔بندش اکثر امتحانی ادوار کے ساتھ ملتی ہے جس کے نتیجے میں اہم امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کیلئے تاخیر اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس صورتحال سے طلباء میں تناؤ اور بے چینی بڑھ گئی اور امتحانات میں ان کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
اساتذہ پر اثر:۔ہڑتالوں نے اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی روزی روٹی کو بھی متاثر کیا جنہوں نے ان شٹ ڈاؤن کے دوران اپنی باقاعدہ تنخواہیں وصول نہیں کیں۔ اس مالیاتی غیر یقینی صورتحال نے ماہرین تعلیم کو درپیش چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا۔
نفسیاتی اثر:۔ ہڑتالوں کی وجہ سے طویل اور بار بار ہونے والی رکاوٹوں کا نفسیاتی اثر طلباء اور اساتذہ پر یکساں پڑا۔ بار بار بندش کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور تناؤ نے ذہنی صحت اور تندرستی کو متاثر کیا۔کشمیر میں ہڑتالوں کی وجہ سے تعلیم کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کی کوششیں والدین، ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت کے حکام نے اکثر کلاسوں اور امتحانات کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کی تھی لیکن ہڑتالوں کی بار بار ہونے والی نوعیت نے ایک مستحکم اور سازگار تعلیمی ماحول کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا تھا۔
اس کے علاوہ کشمیر میں تعلیم، ہڑتال اور بند کا معیشت پر خاصا اثر پڑا ہے۔ جب پاکستان کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروپ ہڑتالوں کی کال دیتے تھے تو وہ کاروبار، بازاروں اور نقل و حمل کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے تھے جس کے نتیجے میں مختلف شعبوں کو معاشی رکاوٹوں اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
درج ذیل کچھ طریقے دئے گئے ہیں جن سے ہڑتالوں نے کشمیر میں معیشت کو متاثر کیا؛
پیداواری صلاحیت میں کمی:۔ہڑتالوں کے دوران کاروبار بند رہے اور روزمرہ کی معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں۔اس سے صنعتوں اور کاروباری اداروں کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوئی، جس سے ان کی آمدنی اور منافع متاثر ہوا۔
مزدوروں کیلئے آمدنی میں کمی:۔ ہڑتالوں کے نتیجے میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں، دیگرمزدوروں اور چھوٹے کاروباری مالکان ،جو روزانہ کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں ،کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ کاروبار بند ہونے کے بعد یہ افراد اکثر اپنے آپ کو بغیر کام کے اور دن بھر آمدنی کے بغیر پاتے تھے۔
سیاحت پر اثر:۔سیاحت کی صنعت ، جو کشمیر کیلئے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے، کو ہڑتال کے دوران بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ بدامنی کے دوران سیاح اپنے منصوبوں کو منسوخ کرتے تھے یا مکمل طور پر اس علاقے کا دورہ کرنے سے گریز کرتے تھے جس کے نتیجے میں ہوٹلوں، ریستورانوں، ٹور آپریٹروں اور متعلقہ کاروباروں کو نقصان اٹھاناپڑا۔
تجارت اور سپلائی چین میں رکاوٹ:۔ بازاروں اور نقل و حمل کی بندش سے تجارت اور سپلائی چین میں خلل پڑا۔ کاروباری اداروں کو خام مال حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور تیار مال مارکیٹوں تک نہیں پہنچ سکا، جس کی وجہ سے سٹور شدہ مال کے نقصانات ہوئے اور سپلائی میں کمی واقع ہوئی۔
منفی سرمایہ کاری کا ماحول:۔بار بار ہڑتالیں خطے میں سرمایہ کاری کا غیر یقینی ماحول پیدا کرتی ہیں۔ سرمایہ کار ایسی جگہ پر سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاتے تھے جس میں باقاعدہ رکاوٹیں اور غیر یقینی صورتحال ہوتی تھی، جس کی وجہ سے معاشی ترقی میں سست روی آئی تھی۔
حکومتی محصول پر اثر:۔حکومت کو ہڑتالوں کے دوران محصولات کے نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا، کیونکہ کاروبار بند رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹیکس کی وصولی اور دیگر سرکاری محصولات میں کمی واقع ہوتی تھی ۔
عوامی مالیات پر دباؤ:۔حکومت کو ہڑتال کے دوران امن و امان کی صورتحال کو سنبھالنے کیلئے اضافی وسائل مختص کرناپرتے تھے جس کیلئے فنڈس کو دوسرے ترقیاتی منصوبوں سے منتقل کرناپڑتاتھا۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘کے سینئر سٹاف ممبر ہیں۔)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)