جمیل احمد محسن، پونچھ
انسان کو خالق ِ کائنات نے جب وجود بخشا تو اس وقت انسان کے پاس وسائل کی بالکل عدم دستیابی تھی، اور نہ ہی وسائل تیار کرنے کے لئے اسباب و عوامل کار فرما تھے۔آخر کار پیہم جہد و عمل کے ذریعے انسان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتا گیا اور مالک کی طرف سے عطا کی گئی عقل و فہم و فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان روز افزوں ترقی کرتا گیا۔ آخر کار کپڑوں کی جگہ پتے اور گھاس پھوس پہننے والا انسان ہوا میں اڑنے لگا ۔ انسان کے ترقی کرنے میں خود انسان کا بہت بڑا کردار ہے۔ انسان نے شروع سے ہی آمدروفت کے سلسلے کو ساتھ رکھا اور اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے مختلف علاقوں کے اسفار کئے۔شروع میں یہ آمدروفت بہت کٹھن ہوتی تھی کیونکہ اس کے لیے راستے بہت کٹھن ہوا کرتے تھے، اور بہت ساری مشکلات درپیش آیا کرتی تھیں۔
لیکن جوں جوں ترقی ہوتی گئی یہ مشکلات کم ہوتی گئی اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں اور منٹوں کا سیکنڈوں میں طے ہوتا گیا۔ اس کے لئے آج کل آمدروفت کے مختلف سلسلے موجود ہیں جن میں فضائی، بحری اور زمینی راستے شامل ہیں۔ ان سب میں سے اہمیت کے حامل زمینی راستے ہیں ۔چاہے وہ سڑک کی شکل میں ہوں یا پھر راستوں کی شکل میں ہوں کیونکہ یہ سستے بھی ہیں اور دیرپا بھی اور آرام دہ بھی۔اس وقت دیکھا جائے تو پوری دنیا میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے اور عوام و خواص مختلف جگہوں پر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سفر کرتے ہیں۔ بھارت میں دیکھا جائے تو اکثر و بیشتر جگہوں پر سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جو آزادی کے بعد ان مشکلات سے آزاد نہیں ہوئے اور جہاں پہ سڑک تو درکنار چلنے کے لئے صحیح سے راستے تک دستیاب نہیں ہیں۔
انہی بدنصیب علاقوں میں سرحدی ضلع پونچھ کے تحت گائوں چکھڑی بن کا علاقہ بن ناگاناڑی ہے ،جہاں پر ابھی تک سڑک کی کوئی بھی سہولیت موجود نہیں ہے۔جہاں پر ابھی بھی مریضوں کو چار پائی اور کاندھوں پر اٹھا کر گھنٹوں گھنٹوں پیدل چل کر ڈاکٹروں کے پاس لایا جاتا ہے۔جہاں پر سڑک کی عدم دستیابی کی وجہ سے باقی تمام تر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اور دیکھا جائے تو یہ علاقے بالکل ترقی کی شاہراہ سے کٹے ہوئے ہیں۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے بچے تعلیم سے بالکل دور ہیں۔ پانی اور بجلی کی عدم دستیابی رہتی ہے کیونکہ استعمال میں شامل سامان کو اتنی دور سے پیدل لے جانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کو کندھوں پر اٹھا کر اور چارپائی پر اٹھا کر لے جایاجاتا ہے۔ وہاں پر کسی بھی طرح کا کوئی بیداری پروگرام نہیں کیا جاتا کیونکہ وہاں پر چلنے کے لئے راستے تک نہیں ہیں ۔وہاں پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی بیداری پروگرام نہیں کیا جاتا کیونکہ وہاں پر چلنے کے لئے راستے تک نہیں اور لوگ وہاں جانے سے ڈرتے ہیں۔
سردیوں میں برف باری کی وجہ سے یہ علاقے بالکل شہر سے کٹ جاتے ہیں اور لوگ صرف اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔گرمیوں میں راستوں میں تنگ جھاڑیوں کی وجہ سے درندوں کا خوف ہی لوگوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیتا۔اس سلسلے میں وہاں کے ایک مقامی باشندہ بشیراحمد عمر55 سال ،کا کہنا ہے کہ ہم لوگ اس دور میں بھی زمانہ قدیم کی طرح جی رہے ہیں۔ راستے اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہم شہر سے بالکل کٹے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرح کی سہولت ہم تک نہیں پہنچتی ہے۔ہمارے بچوں کو تعلیم سے دور رہنا پڑتا ہے کیونکہ اسکول یہاں پر موجود تو ہیں لیکن اساتذہ شہروں سے تعینات ہیں اور وہاں تک پہنچنے میں گھنٹوں کا سفر کرنا پڑتا ہے اور وہ وقت پر نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ دوسری کئی قسم کی سہولیات سرکار کی طرف سے گر دی بھی جائیں تو وہاں تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ راستے ہی اتنی کٹھن ہے کہ وہاں پر پہنچنا ناممکن ہے۔ سرکار کی طرف سے اگر کوئی سہولیات دی بھی جائے تو وہاں پر صحیح سے نہیں پہنچ پاتی کیونکہ راستے اتنی تنگ ہیں کہ لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔
ایک اور شخص محمد شفیع عمر45سال کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سڑک کانہ ہونا ہے۔یہاں ایسے علاقے موجود ہیں جو سیاحت کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بلکل کٹے ہوئے ہیں۔مریضوں اور بچوں کو اٹھا کر لے جانے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں، بچے تعلیم سے دور ہیں۔ خواتین بالکل ان پڑھ ہیں ان تک کوئی بھی بیداری کی مہم نہیں چلائی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی بیداری مہم والا آتا ہے۔ہم لوگ کن کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ایک نوجوان لڑکی عائشہ عمر18سال،کا کہنا ہے کہ ہمارا علاقہ شہر سے بالکل کٹا ہوا علاقہ ہے جہاں پہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سب سے زیادہ خواتین کو مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں کی تعلیم بے حد متاثر ہورہی ہے۔ چھوٹے بچوں کی بنیاد ہی نہیں بنتی اور بعد میں چل کر وہ کسی بھی کام کے نہیں رہتے ہیں اور نہ ہی وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔راستے اتنے تنگ ہیں کہ دو افراد شانہ بشانہ چل نہیں سکتے۔ افسوس کہ ہم کن کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں کسی نے بھی ان کے ازالہ کی فکر نہیں کی۔ ہم لوگ کیسی زندگی گزار رہے ہیں بیان کرنا مشکل ہے۔ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یقینا ان لوگوں کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور اتنی بڑی مشکلات کا سامنا لوگ اس دور میں بھی کر رہے ہیں جہاں پر لوگ مریخ پر جانے کا سوچ رہے ہیں ۔باقی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے لیکن یہاں ان علاقوں میں صحیح طریقے سے چلنے کے لئے راستے تک لوگوں کو میسر نہیں ہیں۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ ان علاقوں کی طرف خاطر خواہ توجہ دی جائے اور ان لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ قدیم انسان کی طرح اس دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس دور میں بھی یہ لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے بھی مشکلات کا سامنا نہیں کیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد بھی ان لوگوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اس وقت سے لے کر اب تک ویسے ہی ہیں۔ان کی زندگی میں ترقی کی کوئی بھی کرن دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کی شاہراہ سے پونچھ کا یہ دیہی علاقہ بالکل کٹا ہوا ہے اور اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔(چرخہ فیچرس)