سیدہ افشانہ
کشمیر کے متحرک اور بدلتے ہوئے منظر نامے میں، ایک خوفناک حقیقت سامنے آ رہی ہے ۔منشیات کی لت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے خطے پر ایک سیاہ سایہ ڈالا ہوا ہے۔ خطے کی ہنگامہ خیز تاریخ، بے روزگاری کی بلندترین شرح اور منشیات تک آسان رسائی جیسے عوامل نے اس بحران میں اپنا بڑاحصہ ڈالا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے سماجی انصاف اور بااختیاری کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر یونین ٹریٹری میں تقریباً 13.50 لاکھ منشیات کا استعمال کرنے والے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 10 سے 17 سال کی عمر کے تقریباً 1.68 لاکھ بچے منشیات استعمال کرنے والوں میں شامل ہیں، جوبھنگ، اوپیئڈز،سکون آور ادویات، کوکین، اعصابی نظام کو بے حس کرنے والی ادویات (اے ٹی ایس)،دَم کش اور ہیلوسینوجنز کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے عام شکل نسوں میں سیرنج کے ذریعے ہیروئن کا استعمال ہے۔
منشیات کی لت کے نتائج تباہ کن ہیںاور خوابوں کا ٹوٹنا اور زندگی کا بکھر جانا عام بن گیا ہے۔ منشیات کی لت کے تباہ کن اثرات کشمیر کے سماجی ڈھانچے تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ منشیات کا استعمال کرنے والوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انجیکشن کے ذریعے نسوں میںمنشیات کا استعمال کرنے والوں کو ایچ آئی وی/ایڈز، دل کی بیماریوں اور ٹی بی ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔بچے اور نوجوان، جنہیں مستقبل کی امید ہوناچاہئے،وہ اس وبا کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں بیداری پیدا کرنا، روک تھام کے پروگراموں کو نافذ کرنا، ذہنی صحت کی مدد فراہم کرنا اور نشے کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا شامل ہے۔ کشمیر میں منشیات کی لت کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایک جامع اور باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں مختلف سٹیک ہولڈر شامل ہوں۔
منشیات کی لت سے نمٹنے کے پہلے اقدامات میں سے ایک اس کے نتائج اور افراد اور معاشرے پر اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ عوام کو منشیات کے خطرات کے بارے میں آگاہ کرنے کے اقدامات غلط فہمیوں کو دور کرنے اور مدد کے حصول سے وابستہ رسوائی کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اسے حکومتی کارکنوں، سول سوسائٹی گروپوں، مذہبی مبلغین اور والدین کے دائرہ کار سے باہر جانا ہوگا۔سکولوں، کالجوں اور کمیونٹیز میں منشیات کی روک تھام کے موثر پروگراموں کا نفاذ نوجوانوں کو باخبر انتخاب کرنے اور ساتھیوں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے علم اور ہنر سے آراستہ کر سکتا ہے۔ مشاورتی خدمات، سننے کی تھراپی، حقیقی زندگی کی کہانیاں اور اخلاقی تعلیم کو پریشان نوجوان ذہنوں تک پہنچنا چاہئے۔ ان پروگراموں کو صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے، لچک پیدا کرنے اور تناؤ اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے طریقہ کار فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ منشیات کی لت سے دوچار افراد کو معیاری علاج اور بحالی کی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔ اس میں مزید بحالی مراکز اور امدادی گروپس کا قیام بھی شامل ہے جہاں افراد نشے پر قابو پانے کیلئے درکار مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ دماغی صحت کے بنیادی مسائل کو حل کرنا، جو منشیات کے استعمال میں حصہ ڈال سکتے ہیں، ضروری ہے۔ مشاورت اور تھراپی کی خدمات پیش کرنے سے نہ صرف افراد کو صدمے، ڈپریشن اور اضطراب سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ منشیات کو فرار کا راستہ اختیار کرنے کے ایک آپشن کے طور استعمال کرنے کے سلسلہ میںمنشیات پر انکا انحصاربھی کم کیاجاسکتا ہے۔ بیروزگاری کی بلند شرح اکثر افراد کو منشیات کی لت میں مبتلا کرنے میں حصہ ڈالتی ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروگرام نوجوانوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں اور انہیں مقصد اور سمت کا احساس فراہم کر سکتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور خطے میں منشیات کی دستیابی کو روکنے کیلئے منشیات تک رسائی فراہم کرنے والے چینلوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ منشیات کے قوانین کا سختی سے نفاذ منشیات سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث افراد کی روک تھام کا کام کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر روز گرفتار ہونے والے منشیات فروشوں کی تعداد کے بارے میں کوئی فالو اپ اپ ڈیٹ نہیں ہے۔ ان گرفتاریوں کو کس طرح اس خطرے پر قابو پانے کیلئے انتہائی موثر قرار دیا جا سکتا ہے، اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں کمیونٹی رہنماؤں، بزرگوں اور خاندانوں کو منشیات کی لت سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے شامل کرنا چاہئے۔ ایک معاون اور فکر مند ماحول بنا کر، خاندان ایسے افراد کیلئے حفاظتی جال فراہم کر سکتے ہیں جو نشے میں پڑنے کے خطرے میں ہیں۔ والدین کو اولاد کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے اضافی محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے بچوں سے بطور دوست بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔
سپورٹ نیٹ ورکس اور ہیلپ لائنز کا قیام ان افراد کو فوری مدد اور رہنمائی فراہم کر سکتا ہے جو اپنے لئے یا اپنے پیاروں کیلئے مدد کے خواہاں ہوںاس سے قطع نظروہ اشرافیہ یا غریب معاشی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، تعلیم یافتہ ہوںیا نہیں اور دونوں جنسوں سے تعلق رکھتے ہوں۔
کھیلوں، فنون لطیفہ اور ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی افراد کیلئے مثبت راستہ فراہم کر سکتے ہیں، ان کی توجہ منشیات سے ہٹا کر انہیں صحت مند اور پیداواری سرگرمیوں میں شامل کر سکتی ہیں۔ گو کہ اس طرح کی بہت ساری چیزیں آس پاس ہو رہی ہیں، اس کے باوجودمنشیات کے استعمال میں اضافہ کی گتھی سلجھنے سے قاصر ہے۔
نشے پر قابو پانا ایک ایسا سفر ہے جس میں طویل مدتی عزم اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ طویل مدتی بحالی اور بعد کی دیکھ بھال کی خدمات پر زور دینے سے مسلسل بحالی اور دوبارہ نشے کی لت لگنے کی روک تھام میں کامیابی کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر پالیسی میں تبدیلیوں کی وکالت منشیات کی روک تھام، علاج اور بحالی کی خدمات کو بہتر بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس میں اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کیلئے مناسب وسائل کی تقسیم بھی شامل ہو سکتی ہے۔غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور امدادی تنظیموں، جو نشے سے نجات کا تجربہ رکھتی ہیں، کے ساتھ شراکت داری خطے میں منشیات کی لت سے نمٹنے کی کوششوں کو تقویت دے سکتی ہیں۔
حکومتی اداروں، کمیونٹی لیڈروں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد، خاندانوں اور افراد کے درمیان متحدہ کوششوں کو فروغ دینے سے کشمیر میں منشیات کی لت پر قابو پانا ممکن ہے۔ معاشرے کو انکار کی کیفیت سے باہرنکل کر اس حقیقت کو قبول کرناہی پڑے گا کہ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے اور منشیات بہت گہرائی تک معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔ اجتماعی کوشش اور مخلصانہ عزم کے ذریعے منشیات کی لت کے پریشان کن حقائق کو کشمیر کے لوگوں کے روشن اور صحت مند مستقبل سے بدلا جا سکتا ہے۔
(اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
ای میل۔[email protected]