سید مصطفی احمد
ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا لڑکا یا لڑکی کیسے مزدوری کرسکتیہیں! وہ دوسری بات ہے کہ سرکاری نوکری بھی غلامی کی شکل ہے۔ملازم کے معنی ہے کسی کے احکام کے تحت کام کرنے والا ۔یہ حقیقت اب آشکارہوگئی ہے کہ اگر پڑھے لکھے طلباء کی مشکلات کا جلد از جلد ازالہ نہیں کیا گیا، تو آنے والا کل تباہیوں کا سامان لے کر آئے گا۔ موجودہ زمانے میں کمانا ضروری ہے۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے دونوں قسم کے لوگوں کاروزگار کمانا ضروری ہے۔ آج حالات مختلف ہیں۔ پہلے زمانے میں زندگی ایک سادہ طرز کی تھی۔ ضروریات کے سامان گھر میں مہیا تھے۔ مشترکہ خاندان لگ بھگ ہر جگہ پائے جاتے تھے ۔گھر میں اگر ایک فرد بھی کماتا تھا، تو باقی آرام سے اس کی محنت پر پلتے تھے۔خود انحصار معیشت(economy sufficient Self)ہر گھر کا شیوہ تھا۔
تبدیلیاں قدرت کے قوانین ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پہلے اگر کوئی پڑھتا تھا ،تو نوکری ملنے کے مواقع روشن تھے۔ اس وقت کم لوگ پڑھتے تھے مگر آج اس کے برعکس ہے۔ زمینداری اب غیر پیداواری (unproductive) ہو کر رہ گئی ہے۔ لوگ اب زراعت کے شعبے کو ترک کر کے روزگار کے دیگر مواقع تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں روزگار کے مواقع کی کمی کی وجہ سے پڑھے لکھے طلباء ایک پسائی کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ اس ذہنی کوفت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس دور سے گزررہے ہیں۔ ان کو ہی پتا ہے کہ یہ کتنا بھاری بوجھ ہے جس کے تلے وہ دبے ہوئے ہیں۔
ایسے طلباء کو اب تعلیم سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔ جو تعلیم روزگار دینے سے قاصر ہو، وہ ناقض تعلیم ہے۔ اگر زندگی کے قیمتی سال کسی کام میں صرف کئے جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ صفر آتا ہے، تب یہ کام فضول ہے۔ یہی حال تعلیم کا ہے۔ اس میں کئی گئی محنت ضائع اور لگایا ہوا پیسہ بھی رائیگاں۔ سب سے بڑ کر والدین کی امیدوں کا خون ہوتا ہے۔ ان کی امیدیں دم توڑتی ہیں۔ اب ایک طالب علم خود کو بھول کروالدین کی آنکھوں میں اداسی دیکھ کر اندر ہی اندر سے مر رہا ہے۔ اپنے لئے سرکاری نوکری، گھر بنانا، شادی کرنا، گاڑی خریدنا،زمین خریدنا، وغیرہ یہ ساری چیزیں ابھی کرناباقی ہیں۔ ان سب کی وجہ سے اس پڑھے لکھے نوجوان کا جینا اور مرنا ایک جیسا ہوجاتا ہے۔ بہت سارے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں اپنوں کا بھی اور غیروںدونوں کا ہاتھ شامل ہے۔ کچھ حقیر مفادات کی خاطر ہم سب نے ایسے حالات کو جنم دیا ہے۔
ان کے زخموں کا تو مکمل مداوا نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ کچھ حدتک ان کے زخموں پر مرہم پٹی کئی جاسکتی ہے۔ مسابقتی امتحانات کے ذریعے لئے جانے والے امتحانات میں شفافیت لانا ضروری ہے۔ رشوت خوری کا دروازہ بند کیا جائے۔ نجی اداروں میں روزگار کے مواقع تلاش کئے جائیں۔ پڑے لکھے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے پر کام کیا جائے۔غیر فعال وسائل کا بھرپور استعمال کیا جائے۔کوٹیج انڈسٹریز کا تصور عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب انسان کا دماغ مصروف رہتا ہے تو برائی کے مواقع بھی کم ہوجاتے ہیں۔ گھر کے افراد کو بھی ان طلباء کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کو طعنے دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر بنا بھی نہیں سکتے، تو بگاڑنا بھی کوئی دانائی نہیں ہے۔ ذہنی امراض میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ ہم ایسے راستے تلاش کریں جو بے روزگار طلباء کے لئے روشنی کی امید لے کر آئیں۔ ہر کسی کو اس میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔ ان طلباء کو خود سے شروعات کرنا ہوگی۔ خود جدوجہد کا مادہ اپنے اندر لانے کی کوشش کرناہوگی۔ یہی وقت کی ضرورت ہے اور پکار بھی!
رابطہ۔حاجی باغ، سرینگر کشمیر
ای میل۔[email protected]