محمد ریاض ملک
جنگل کے قریب ایک بستی سے گزر ہوا۔ دیکھاکہ دودھ کی طرح سفید لکڑیوں کا گٹھا پڑاہواہے۔ دل میں سوچاکہ کسی پرانے پیڑ کے بوسیدہ کچھ ٹکڑے ہونگے۔ دھوپ کی وجہ سے چمک رہے ہیں۔ جب قریب پہنچاتو بالکل سبز بچپن عمر کے پیر کی یہ ٹکڑے ٹکڑے کی گئی لکڑیاں تھیں۔جنہیں کلہاڑی سے چیرکر گٹھا بنا گیاتھا۔ پھر باندھ کر راستے کے قریب دھوپ میں زمین باڑ کے طور پر رکھ دیا گیا تھا۔ ان لکڑیوں سے اس کے چمڑے سے پانی ٹپک رہاتھا۔ دل بہت غمذدہ ہوا۔ اسی دوران ایک نوجوان کو اس کی فریاد کی تو کہا سمجھتے نہیں ان پیڑوں کو کاٹنے والے مگر یہ قتل عام حقیقت میں ہماری نسلوں کا ہے۔یہ داستان نہیں حقیقت ہے کہ ہندوستان کے تمام دیہی علاقوں میں جنگلوں کے قریب بہت کم جنگل کے محافظ اور بہت زیادہ اس سبز سونے کے قاتل بستے ہیں۔جموں وکشمیر کی خوبصورتی کئی راز بھی اسی میں مضمر ہیں کہ یہاں ہرے بھرے جنگلات سالہاسال چٹیل زمین کو سبز چادر سے ڈھانپ رکھتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اور جاندار ان جنگلات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔
جموں کشمیر کا سرحدی ضلع جس کو پونچھ کے نام سے یاد کیاجاتاہے، بھمبر گلی سے شروع ہوکر وادی لورن ساوجیاں تک،دیگوار، سلوتری سے لیکر پیر کی گلی تک بالاکوٹ سے کرشناگھاٹی غرض پورا ضلع چاروں طرف سے گھنے اور خوبصورت جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری تو ہے لیکن اس سبز ذخیرہ کی حفاظت پرمامور محکمہ جنگلات،محکمہ سوشل فارسٹری، پر بہت زیادہ زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جب جرم پر سزاء نہ ہو اور مجرم کو سرعام جرم کا مرتکب قرار نہ دیاجائے تو احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع پونچھ کے دیہی علاقوں میں جنگلات کی حالت زار پر ترس آتاہے۔اس سلسلے میں تحصیل منڈی کے گاوں اڑائی پنچائیت اڑائی پیراں کے موجودہ سرپنچ محمد اسلم تانترے ،جن کی عمر 55 سال ہے،کہتے ہیں کہ ایک طرف محکمہ سوشل فارسٹری جگہ جگہ کلوزر لگانے کو ترجیح دے رہی ہے۔اسے لگانے میں سٹیٹ لینڈ پر بھی کلوز لگادئے گئے ہیں۔ یہاں اڑائی میں اڑائی کٹھہ، کھاریاں والی، گلیاں، ڈھیری، درلاں وغیرہ میں کلوز لگاے گئے ہیں۔پورے بلاک میں ایک ہی دو کلوز کے محافظ ہیں۔ جو ہر جگہ پہنچ نہیں پاتے ہیںجس کی وجہ سے لوگ ان کلوزروں کو اجاڑ دیتے ہیں۔اڑائی کٹھہ میں کلوز کے کہیں کہیں پول اور تار رہ چکی ہے۔ کوئی بھی پیڑ پودا نہیں۔ دیگر جگہوں پر بھی کلوز اجڑ رہے ہیں۔ محافظ نہ ہونے کی وجہ سے کلوزر اجڑنے سے لاکھوں مالیت کے پیڑ پودے اجڑ جاتے ہیں۔
انہیں بچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے انتظامیہ کو سربند کرنے کی غرض سے محکمہ سوشل فارسٹری پونچھ کے بلاک منڈی فارسٹ افسر عبدالقیوم سے جب پوچھا گیا توان کا کہناتھاکہ پوری منڈی میں مستقل ایک محافظ ہے۔ جبکہ چھ ڈیلیویجرمحافظ ہیں۔ محکمہ سے سبکدوش ہوئے افراد کی جگہ بھی کوئی نئی تعیناتی نہیں ہے۔ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ کلوزروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اکثر کلوزروں میں بہت بہترین ہریالی پیڑ پودے موجود ہیں۔کلوزروں کے قرب وجوار میں مقامی لوگوں کی حفاظت کے لئے گیارہ رکنی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ جس کمیٹی کا چیئرمین متعلقہ سرپنچ ہوتاہے دیگر ممبران ہوتے ہیں۔ انہیں کی مکمل دیکھ ریکھ میں کلوزروں کی ری پیرنگ اور شجرکاری کی جاتی ہے۔ جس کے لئے پنچائیت فنڈ اور محکمہ کی جانب سے فنڈ کا استعمال کیاجاتاہے۔ اس کے باوجود بھی اکثر کلوزر اجڑ چکے ہیں۔ تاریں اور پول گرکر برباد ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اکثر جنگلات میں جانے انجانے میں پیڑ پودوں کا نقصان بھی کیاجاتاہے۔ بے دردی سے پیڑوں کے تنوں کو چھیل کر رکھ دیاجاتاہے۔کہیں چھوٹے پیڑوں کو کاٹ کر انہیں لکڑی بالن کے طور پر استعمال کیاجاتاہے اور جواب یہ دیاجاتا ہے کہ جنگل کون ساکسی کی ذاتی جائیدادہے؟یایہ کہ کون ساجنگل کسی نے پیداکیاہے؟
اگریہی حالت رہی تو وہ دن دورنہیں جب جنگل ختم ہوجائیں گے اور آبادیوں میں گھنے پیڑ پودے،شجردار بے شجرکثیر تعداد میں ہونگے۔تو جنگلی جانور بھی آبادی میں ہی اپنی رہائش گاہ بنالیں گے۔ پھر مزید لوگوں کو جنگلی جانور اپنا لقمہ بنائیں گے۔ ایسے میں پھر کچھ نہیں کرپائیں گے۔ مزید سنگین نتائج سے قبل محکمہ اور مقامی لوگوں کو چاہئے کہ وہ مل کر جنگلوں کی حفاظت کریں۔جنگلوں کو تباہ و برباد کرنے والوں اور ان کی معاونت کرنے والوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جنگلات میں ایک ایک پودے کی زندگی کو بچاکرملک کو ہرابھرابناناہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ایسا کر کے ہم صرف جنگل کی ہی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی عظیم نعمت چھور کر جائینگے۔ پائیدار ترقی کاہدف بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔اسی لئے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جنگلات کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ (چرخہ فیچرس)
رابطہ۔ منڈی، پونچھ،جموںوکشمیر