شیخ ولی محمد
سماجی علوم سے وابستہ اہم مضمون تاریخ کو پرائمری سطح ہی سے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ مختلف سرویز(Surveys)سے یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ تاریخ کے مضمون سے اثر بچوں کو دلچسپی نہیںہوتی اور بچے اس کلاس کے دوران بہت ہی تھکاوٹ اور تنگی محسوس کرتے ہیں ۔ اکثر بچے سوشل سٹیڈیز کلاس کو سکول سونے کا ٹائم کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ تاریخ پڑھانے کے لئے نصابی کتاب تو ہوتی ہے اور استاد نصابی کتاب کی روشنی میں مختلف ابواب اور مضامین بچوں کے دماغ میں اُتارنے کی کوشش تو کرتا ہے تا ہم اس کے باوجود بچوں کو یہ مضمون اسی طرح فضول اور بکواس دکھائی دیتا ہے جس طرح سائنسی کی کوئی تھیوری(Theory)بغیر پریکٹیکل(Practical)کے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیںکہ تاریخ کو سمجھنے کا سب سے اہم ذریعہ آثار قدیمہ( Archaeology)ہے ۔ آثار قدیمہ سے ہی تاریخی دور کی مختلف تبدیلیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔انسان نے لاکھوں سال قبل اپنی آبادیاں بسائیں جو تغیرات اراضی کے باعث زیر زمین ہوگئیں ۔ اسی طرح لاکھوں برس گزر گئے پھر ماہریں آثار قدیمہ نے کھدوائیاں( Excavations)کروائیں تو اس دور کی بہت ساری چیزیں جیسے ہڈیاں ،دانت ، برتن، اوزار ، ہتھیار ، سکے ، ٹائلز ، زیورات وغیرہ برآمد ہوئے جس سے قدیم زمانے کی تہذیب ، تمدن ، رہن سہن کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں ۔ اور بعد میں زمانہ قدیم کے حالات انسانی ڈھانچوں ، حیوانی ڈھانچوں ، کھوپڑیوں ، دانتوں اور دیگر چیزوں پر کیے گئے ریڈیائی کاربن امتحانات( Carbon Dating)کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈھانچے کتنے ہزار سال پہلے کے ہیں اور بعد میں اسی حساب سے تاریخ مرتب کی گئی ۔
جموں و کشمیر کی تاریخ کو منظر عام پر لانے کیلئے جہاںمقامی و غیر ملکی مورخین اور محققین نے قلم اُٹھا یا ،وہیں سرکاری سطح پر محکمہ آثار قدیمہ(Archaeology Department)نے اس میدان میں بہت ساری خدمات انجام دی ۔ جن میں سب سے نمایاں کام عجائب گھروں( Museums)کا قیام ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی SPSمیوزیم سرینگر ہے۔ایس پی ایس میوزیم ڈوگرہ راج میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دورحکومت میں 1898میں قائم ہوا ۔ سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارے پر واقع لال منڈی کے مقام پر مہاراجہ پرتاب سنکھ نے چار ماہرین جن میں یورپین سکالر SH Godfray،J.B Bleazby ،G. Pearlsاور General Rja Amar Singhشامل ہیں، کی ماہرانہ ہدایات پر قائم کیا ۔ ابتدائی مرحلے پر نوادرات توشہ خانہ ، ریاستی خزانہ اور ریاستی ملڑی اسٹور سے حاصل کیے گئے ۔ بعد میں ہر سال میوزیم کے نوادرات میں اضافہ ہوتا گیا۔
2016ء میں میوزیم کو متصل نئی بلڈنگ میں منتقل کیا گیا جو سائنسی طریقے پر تعمیر کی گئی ہے تاکہ میوزیم میں تاریخ سے جڑی ہوئی ہر ایک چیز احسن طریقے سے محفوظ رہ سکے ۔ آج ہم اس میوزیم کا تعارف اس لئے کراتے ہیں کہ تاریخی کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن تاریخ کے ساتھ دلچسپی اور لگاؤ پیدا کرنے کی غرض سے اگر کلاس روم سے نکل کر بچوں کو اس میوزیم کی سیر کرائی جائے تو شاید نئی تعلیمی پالسی 2020کا ایک اور تقاضا پورا ہوسکتا ہے ۔ اگر بچے ایک بار اس میوزیم کا رُخ کریں تو شاید انہیں تاریخ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی اور پھر وہ بار بار ایکسکرشن کے بجائے اپنے استادوں سے یہی مطالبہ کریں گئے کہ ہمیں ان تاریخی مقامات کی سیر کرائی جائے جن سے ہمارا ماضی وابستہ ہے ۔ متعلقہ محکمہ نے جس دلکش انداز اور منصوبہ بند طریقے سے SPSمیوزیم کو سجایا ہے وہ قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی ۔ کشمیر کی تاریخ سے وابستہ چھوٹی قیمتی چیز سے لیکر بڑے مجسموں(Sculptures) تک مختلف گیلریوں میں ایسے رکھا گیا ہے کہ ہر ایک چیز خودبول رہی ہے ۔ وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔ اس عجائب گھر میں تقریباً 80ہزار سے زائد نوادرات موجود ہیں ۔ یہ نوادرات جموں و کشمیر کی قدیم ثقافت اور تہذیب و تمدن کے شاندار ماضی کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اس میوزیم میں اسلام کے علاوہ بدھ مت ور ہندو تہذیب کے آثار قدیمہ کے تحفظ کو یقینی بنا یا گیا ہے ۔ دو منزلوں پر مشتمل اس عجائب گھر کو مختلف گیلریوں میں سجایا گیا ہے اور ہر گیلری میں ہر ایک چیز کے متعلق ضروری تفاصیل درج کی گئی ہے کہ مشاہدہ کرنے والوں کو کسی گائیڈ کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ یہ گیلریز( Galleries)اس طرح ہیں: ۔
1۔ Archaelogy Gallery
2۔Numismatic Gallery
3۔ Decorative Art Gallery
4۔ Culture and Society Gallery
5۔ Arms and Armoury Gallery
6۔ Textile Gallery
7۔ Manuscript Gallery
8۔ Natural History Gallery
9۔ Jewelry Gallery
10۔Geology and Mineral Gallery
میوزیم میں جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں سے برآمد شدہ مجسمے موجود ہیں ۔ جبکہ قدیم کاغذی کرنسی اور سکوں کے تمغوں کا مجموعہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہاں پر نایاب اور قدیم قرآنی نسخوں کا مجموعہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جبکہ پرانے دور میں کشمیری کاغذ پر خالص سونے اور سیاہ سیاہی جنہیں دیکھ کر ہر ایک دھنگ رہ جاتا ہے ۔ اس عجائب گھر میں پرانے زمانے کے آرائشی چیزیں ، موسیقی کے آلات ، مختلف قسم کے برتن ، فرنیچر ، چمڑے کی چیز یں، ٹائلز ، بھوسے بھرے پرندے اور جانور ہیں ۔ یہاں پر کشمیر کی شاندار روایات اور قدیم تہذیب و تمدن کے وہ نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو کشمیر کے رہن سہن ، کھان پان ، شادی وبیاہ اور عام معمولات زندگی میں بخوبی استعمال میں لائے جاتے رہے ہیں ۔ وہیں گیلری میں قدیم زیورات ، روایتی لباس اور دستکاری سے جڑی ایسی نایاب چیزیں رکھی گئی ہیں جو کہ اب یادپارینہ بن کے رہ گئیں ہیں ۔ میوزیم میں پرانے طرز تعمیر کی جھلک بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جس میں مٹی اور زیادہ ترلکڑی کا استعمال کیا جاتاتھا ۔یہاں پر 13ویں صدی کے ووڈ کا رونگ( Wood Carving)کے بہترین نمونے بھی گیلر ی میں موجود ہیں جو کہ اس دور کے دستکاروں کی فنی صلاحیت کے عکاس ہیں ۔
ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیوز، آر کیالوجی اینڈ میوزیمز جموں و کشمیر( Directorate of Archives Archaelogy and Museums)کے مطابق اس وقت SPSمیوزیم میں تقریباً80000 نوادرات موجود ہیں جن میں 1992مجسمے(Sculptures)، 680 تصاویر (Paintings) ، 2399 مخطوطات(Manuscrupts) ،356اوزار/ ہتھیار (Weapons)، 333 ٹیکسٹائلز اشیاء(Textiles Items) ، 60 علم بشر یات کی چیز یں( Anthropology Items)، 620حیوانات/ نباتات سے متعلق اشیاء( Natural History Items)،1096آرائشی فن پارے(Decorative Art Items)،71131سکّے(Numismatic Items) ، 900ارضیات / معدنی اشیاء( Geology & Minerals Items)اور 28زیورات و جواہرات( Jewellery Items)شامل ہیں ۔متعلقہ محکمہ نے کافی دوڑ دھوپ اور انتھک محنت کے بعد ماضی سے جڑی ہوئی ان نادر اور نایاب چیزوں کو لوگوں بالخصوص طالب علموں کے لئے محفوظ کرکے رکھا ہے۔ اب تعلیمی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ قدیم ثقافتی ورثے سے نئی نسل کوآگاہ کرنے کیلئے اس قیمتی خزانے سے استفادہ کیا جائے ۔ تاریخ کشمیر کا مشاہدہ کرنے کرانے کے لئے بچوں کو SPSمیوزیم کی سیر کرائی جائے تاکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے ماضی کی یاد گاروں کو دیکھ سکیں ۔ بعد میں بچے تاریخ سیر کی تفصیلات نوٹ کرکے سٹوڈنٹس /سکول نیوز پیپر میں تصاویر کے ساتھ شائع کرسکتے ہیں ۔ یاد رہے یہ میوزیم لوگوں کی سہولیت کیلئے اتور کو بھی کھلا رہتاہے۔ جبکہ اتوار کے بجائے سوموار کو چھٹی ہوتی ہے۔ ( باقی ایک اور تعلیمی سرگرمی اگلے منگل کو )
ای میل۔[email protected]