Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

علِم کے نور سے دور ہوتی بیٹیاں! روئیداد

Mir Ajaz
Last updated: February 23, 2023 12:31 am
Mir Ajaz
Share
8 Min Read
SHARE

رخسار کاظمی ،پونچھ

دنیا آج بھلے ہی اکیسویں صدی میں چل رہی ہے لیکن اگر کہا جائے کہ وہ پہلے جیسی صدیوں، پرانی رسمیں اور روعایتیں اسی طرح زندہ ہیں تو بیجا نہ ہو گا جبکہ اس میں بھی کو ئی شک کی بات نہیں کہ دنیا کہ تمام ممالک اور حکومتیں خواتین کو با اختیار بنانے میں کوشاں ہیں۔ عورت اور مرد کو برابری کا مقام حاصل کروانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد کے مقابلے برابری کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ایک عورت جب بیٹی ہوتی ہے تو اپنے باپ کی کمائی پر منحصر ہوتی ہے اور جب بیوی بنتی ہے تو اپنے شوہر پر انحصارہتی ہیں۔مگر ایک عورت خود پر انحصار نہیں ہو پاتی اس کی بڑی وجہ اس کی تعلیم مکمل نہ ہونا ہوتا ہے۔وہیں آج بھی سماج کی چھوٹی سوچ نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کر رکھا ہے، جہاں عورت کو مرد کے برابر کادرجہ نہیں دیا جاتا۔ عورت چاہئے پڑھائی میں کتنی بھی ہوشیار اور ذہین کیوں نہ ہو تب بھی اسے باہر پڑھنے نہیں بھیجا جاتا کیونکہ اس کے والدین کبھی بھی اپنی بیٹی کو لیکر مطمئن نہیں رہتے کہ اگر وہ باہر پڑھے گی تو لوگ چار باتیں کریں گے،اور مرد چاہے کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو اسے موقع ضرور دیا جاتا ہے۔اسے باہر بڑے سے بڑے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتاتاکہ وہ اپنا مستقبل مضبوط کر سکیں۔
مگر افسوس بیٹی کے مستقبل کو بہت ہلکا لیا جاتا ہے کیونکہ وہ عورت ہے تو اسے اپنی مرضی سے خواب دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔جبکہ حق تو یہ ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم فرد کا بنیادی حقوق ہے۔آج پوری دنیا میں عورت کے حقوق پر باتیں توکی جا رہی ہیں اور ان کے حقوق کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش بھی جاری ہیں لیکن وہیں اگر ہندوستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو آج بھی خواتین کا شرح خواندگی مردوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔2021 کے اعدادوشمار کو اگردیکھا جائے تو خواتین کا شرح خواندگی محض 71.5 فیصد ہے جبکہ اس کے مد مقابل مردوں کا شرح خواندگی 84.7 فیصد ہے یعنی تعلیمی لحاظ سے مرد کے مقابلے خواتین کئی حد تک پیچھے ہیں۔تاہم اس کمی کو پورا کرنے کیلئے صرف حکومتی کوشش ہی نہیں بلکہ ہر اس والد کو آگے آنا پڑے گا جس کے گھر بیٹی نے رحمت بن کر جنم لیا ہے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں والدین اگر اپنی بیٹیوں کی پرورش اسی طرح کریں جیسے اپنے لاڈلوں کی کرتے ہیں تو یہ ہی بیٹیاں کل رانی لکشمی بائی،اندرا گاندھی اور کلپنہ چاولہ جیسی مثالیں بن کر سامنے آئیں گی۔مگرجس معاشرے میں آپ اور میں رہ رہے ہیں وہاں ان کے پنکھوں کو اڑان بھرنے سے پہلے ہی کاٹ دیا جاتا ہے۔ وہیں جس سرحدی ضلع سے راقم کا تعلق ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔تینوں اور سے سرحد سے گھیرا ہوا یہ خطہ اور یہاں کی بیٹیاں اپنے تعلیمی خواب دیکھنے کی ہمت تو رکھتی ہیں مگر پسما ندگی اور گھریلوں رکاوٹیں ان کیلئے کسی نا امیدی سے کم نہیں۔
اسی سلسلہ میں جب میں نے اپنی ہی ہم جماعت طلباء سے گریجویشن کی ڈگری کے بعد کی پڑھائی کے متعلق گفتگوکی تو زیادہ تر تعداد میں لڑکوں نے کہا کہ وہ باقی پڑھائی باہر کسی بڑی یونیورسٹی سے کریں گی۔ مگر جب میں نے لڑکیوں سے اس متعلق پوچھا تو زیادہ تعداد میں لڑکیوں نہ کہا کہ انکے والدین باہر پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔وہیں جب میں نے اپنی بیچمیٹ ثمرین، زبیدہ، زینب اور رفیعہ سے اس متعلق پوچھا تو سب نے یہی کہا کہ پونچھ سے باہر ہمارے گھر والے پڑھائی کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم لڑکیاں ہیں اور اکیلے باہر رہنا ہمارے لئے محفوظ نہیں۔ کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ فاصلاتی نظامِ تعلیم یعنی اگنو میں داخلہ لے کر گھر سے ہی آگے کی تعلیم حاصل کریں گی۔ اسی بارے میں میری ایک اور ہم جماعت دوست روبیہ نے مجھے بتایا کہ اسے پروفیسر بننے کا بہت شوق ہے اور بچپن سے ہی اسنے یہی خواب دیکھا ہے۔مگر جب اسنے اپنے والدین سے اس متعلق بات کی کہ اسے ایجوکیشنل فیلڈ میں جانے کا بہت شوق ہے اور وہ آگے کی پڑھائی علی گڑھ سے کرنا چاہتی ہے۔اسکے والدین نے یہ کہہ کر باہر جانے سے صاف منع کر دیا کہ اکیلے ہم نہیں بھیج سکتے۔ تعلیم کیلئے اور پروفیسر بننے کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ گھر سے ہی رہ کراگنو میں ماسٹرز کر کے کوئی چھوٹی سی نوکری دیکھواور شادی کرلو وقت سے۔ لڑکیاں اتنا وقت گھررہے گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ یہ سن کر میری دوست نے اپنے بچپن کے خواب کو دفن کر دیا۔
جبکہ حق تو یہ ہے کہ روبیہ ہم سب دوستوں میں سب سے زیادہ ہوشیار ہے۔ پڑھائی میں اور کسی بھی موضوع کو آسانی سے سمجھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ہم دوستوں کو جب بھی کوئی موضوع سمجھ میں نہیں آتا تو ہم روبیہ سے ہی سمجھتے ہیں۔لیکن افسوس روبیہ کی اڑان اپنے ضلع کے کالج تک ہی محدود ہے۔ اس سے آگے کی پڑھائی وہ اپنے گھر میں رہ کر ہی کرے گی۔روبیہ کے درد کو سنتے ہوئے اس کے والدین کی مجبوریوں کو سمجھتے اور ا ن کے فرمان کا احترام کرتے ہوئے مجھے اپنے پڑوسی ملک کی ملالہ اور اس کے والدین کی یاد آگئی۔جنہوں نے ملالہ کو نہ صرف تعلیم کا حق دیا بلکہ تعلیم کے نام پر مہم چھیڑنے کیلئے اس سے ہمت دی۔ تعلیم کیلئے طالبان سے گولی کھا کر اپنے ہمت کو برقرار رکھتے ہوئے والدین کی دعاؤں سے ملالہ نے دنیا کا سب سے بڑا اعزاز یعنی نوبل ایوارڈ سب سے چھوٹی عمر یعنی محض 17سال کی عمر میں حاصل کرکےنہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ تو اس سے صاف ہے کہ اگر والدین ہمت اور ساتھ دیں تو دنیا کی ہر بیٹی ملالہ، کلپنا، اندرا، کرن بیدی اور دروپدی مرمو بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔(چرخہ فیچرس)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
انسدادِ بدعوانی بیورو کی کارروائی، جے ڈی اےملازم کو رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا
تازہ ترین
پارلیمنٹ کو آپریشن سندور میں تباہ ہونے والے جنگی طیاروں کے سلسلے میں فوجیوں کے بیان پر بحث کرنی چاہئے: کانگریس
برصغیر
میرواعظ عمر فاروق کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنا ناقابل فہم: محبوبہ مفتی
تازہ ترین
لداخ کی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے: ایل جی کویندر گپتا
برصغیر

Related

کالمگوشہ خواتین

دین کی سربلندی میں خواتین کا کردار تاریخی حقائق

July 16, 2025
کالمگوشہ خواتین

بیوی کا اصل گھر شوہر کا دل ہے فکرو فہم

July 16, 2025
کالمگوشہ خواتین

رسم شادی کا یہ غلغلہ ہے فکر انگیز

July 16, 2025
گوشہ خواتین

دلہنیںایک جیسی دِکھتی ہیں کیوں؟ دورِ جدید

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?