قدسیہ ملک
ہمارےملک میں نوجوانوں کی کثیر تعداد 30 سال سے کم عمر کی ہے۔ اگر ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائیں تو یہ ملک کے لیے سب سے بڑے منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے روزگار کے مواقع کی کمی، سماجی مصروفیات کا فقدان، تعلیم اور صحت کی غیر مساوی سہولیات، سماجی ناانصافیوں، فرسودہ روایات اور معاشرے کےخارجی رویوں نے نوجوانوں کو بَد دِل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور باعزت ذریعہ معاش تلاش کرنے کے خواب اور خواہشات سب سے تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ملک کے تقریباً نصف نوجوان تعلیم، روزگار یا تربیت سے محروم ہیں۔
نوجوانوں کے اس طبقے کو قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں ہنر مند کارکنوں کے طور پر روزگار بھی نہیں ملتا اور ان کے حقوق کا کوئی قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔شدید تفاوت اور خراب سیاسی اور سماجی اقتصادی حالات نے مایوس اور محروم نوجوان افراد کو جرائم ،منشیات اور بُرائیوں کی دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی بڑے پیمانے پر افراد، خاندانوں اور معاشروں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ملک کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بھی کم ہے، جس نے ملک کو درمیانے درجے کی انسانی ترقی کے زمرے میں ڈال دیاہے۔اگر آج معاشرے میں نوجوانوں کےمستقبل کے لیے صحیح حکمت عملی اور پالیسیاں وضع نہیں کی گئیں، تو ہمارے پاس موجود سب سے بڑی افرادی قوت پسماندہ، عدم برداشت، سماجی برائیوں کا شکار ہو جائے گی۔ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسی لیے معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے نوجوانوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم کی ضمانت دے، پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت فراہم کرے، کام کے معقول مواقع فراہم کرے اور نوجوانوں کی صحت اور دیگر چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کا معاشی ترقی، سیاسی استحکام ،سماجی اور پائیدار ترقی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ حکومت کو شفافیت کے ساتھ مجموعی طور پر تعلیم، روزگار کے مواقع اور نوجوانوں کی ترقی کی پالیسیوں کو بہتر بنانا چاہیے، جن کی کمی ملک کی تعمیر وترقی میں رکاوٹ ہے۔ حکومت کو اسٹارٹ اپ کاروبار کے فروغ، نوجوان کاروباریوں اور ملازمین کے لیے ٹیکس چھوٹ، ملکی اور بین الاقوامی سیاحت کے فروغ اور کھیلوں کے ذریعے وسائل کی پیداوار پر بھی مزید توجہ دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این پی ایف) کے مطابق ،ملک کی آبادی غیر پائیدار شرح سے بڑھ رہی ہے۔
معیاری تعلیم، روزگار، سماجی مشغولیت اور سیاسی بااختیار بنانے کے ذریعے نوجوانوں کی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے اس بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ نوجوانوں کو ان کی مایوسی اور کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا زیادہ اہم ہے جو بالآخر بنیاد پرستی اور پرتشدد انتہا پسندی میں حصہ لینے کے مواقع کم کرسکتاہے۔اگر معاشرے میں تفاوت اور محرومیوں کا احساس برقرار رہے تو یہ سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا ہےاور بالآخر بڑے پیمانے پر قومی سلامتی کو متاثر کر سکتا ہے۔ تشدد، بدعنوانی اور جبر سے نمٹنے کےلئےملک کے استحکام کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے مختلف حصوں میں فنی تربیتی مراکز قائم کرے ، ہنرمند افرادی قوت پیدا کی جائے، تاکہ قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہنر مند لیبر کی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔ اس دور کی تکنیکی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے، آن لائن کاروبار کے میدان میں نوجوانوں کی کاروباری سرگرمیوں پر توجہ دی جائے۔ جب تک کہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور معاش تک مساوی رسائی نہیں دی جاتی،ان کے احساس محرومی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔