آپ کیلا ………جی ہاںکیلا… کیلا یعنی بنانا(Banana)۔ ٹھہرئیے میں کیلے پر آپ کو ایک چٹکلہ سناتا ہوں۔ چٹکلہ گپ بھی ہوتا ہے اور گپ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ جھوٹ بولنا گناہ ہے مگر یہ چٹکلہ مبنی بر حقیقت ہے۔ میرے سکول کے ایک استاد مرحوم سید اکبر جے پوری نے ا یک بار کلاس میں سنایا کہ سادگی اور شرافت کے زمانے میں جب تعلیم ابھی عام نہیں ہوئی تھی ،آٹھویں پاس مرد و زن محکمہ تعلیم میں بحیثیت اساتذہ بھرتی کئے جاتے تھے ،یہ انہی دنوں کی بات ہے مگر آج کل آپ دیکھ رہے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گائوں میں کھیتیوں کی سیر آبی کرتے ہیں اور شہروں میں سڑکوں یا فٹ پاتھوں پر چار پائی ڈال کر ریڈی میڈ نئے پرانے کپڑے ، جنہیں عرف عام میں بنگلہ دیشی مال کہتے ہیں، بیچتے نظر آتے ہیں۔ پاپی پیٹ کے لئے کچھ بھی تو ’’بہر حیا ت چاہئے‘‘ ۔کم تردرجے کی نوکری بھی اگر پڑھے لکھے نوجوان کو مل جائے تو قبول کر لیتا ہے۔ کیا کریں مجبوری ہے۔ بقول دِمارکر راہی ؔ ؎
جب منہ میں دانت تھے چنے میسر نہ تھے
اب چنے میسر ہے مگر منہ میں دانت ندارد
یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ جب تعلیم عام نہ تھی تو آٹھویں پاس اشخاص آج کل کے پی ایچ ڈی سے اچھا اور زیادہ سوشل سٹیٹس یعنی سماجی عزت و آبرو اور وقار رکھتا تھاکیونکہ اس وقت وہ خواتین و حضرات جی جان لگا کر مڈل پاس کی سند حاصل کرتے تھے۔ آج مانگنے کا اُجالا ہے اور دوسرے کے حصے کی دھوپ میں اپنے وجود کو گرم کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی جیب گرم ہے تو حالات ایسے ہیں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹری اور انجینئرنگ اب وقار والی ڈگریاں نہیں رہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ کارپردازانِ حکومت بے کاری کی وجہ اسامیوں کا دستیاب نہ ہونا بتاتے ہیں، جو سراسر غلط ہے۔ حکومت کے پاس مختلف محکمہ جات میں ہزاروں جگہیں خالی پڑی ہیں اور اس کے علاوہ سرکاری شفقت میں پلنے والے وہ ہزاروں لوگ قوم کی کیا خدمت انجام دے رہے ہیں جو پہلی تاریخ کو آکر تنخواہ وصول کرتے ہیں اور مہینہ بھر اپنا ذاتی یا نجی کام کرتے رہتے ہیں ۔ دوکانداری کرتے ہیں، ٹی سٹال چلاتے ہیں یا آٹو رکھشا کھینچتے ہیں۔ یہاں بے کاری بالکل نہیں ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ باقی کیا عرض کریں آپ ماشاء اللہ خود سمجھ دار ہیں۔
ہاں!تو میں آپ کو چٹکلہ سنا رہا تھا۔ ہمارے استاد محترم نے فرمایا کہ ایک بار وہ کہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے برلب سڑک کسی پرائمری سکول میں ایک استاد کو بچوں کو حمد سمجھاتے ہوئے پایا۔ وہ استاد بچوں کو بتا رہے تھے۔’ بچو!
تو ہے اکیلوں کا رکھوالا
تو ہے اندھیرے گھر کا اُجالا
اس شعر میں شاعر خدا تعالیٰ سے کہتا ہے اے خدا تو اکیلوں کی رکھوالی یعنی حفاظت کرنے والا ہے۔ اکیلا معنی کیلا…
چونکہ تم کشمیری ہو اس لئے کیلا نہیں جانتے ۔ مانو کیلا معنی لأر( کھیرا)اب تم نے سمجھ لیا ہوگا کہ شاعر کیا کہتا ہے؟
بہر حال اکیلے کی حمد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہاں! اتنا عرض کرتا چلوں کی اندھیرے گھر کا اجالا کے معنی استاد نے بچوں کو کیا بتائے، وہ ہمارے استاد محترم نے ہم کو نہیں بتائے۔ توعرض کر رہا تھا کہ آپ کیال تناول فرماتے ہیں، کھایئے، ضرور کھائیے، عرض ہی کیا ہے۔ سستے میں کیلشم حاصل ہوتا ہے مگر براہ کرم چھلکا سڑک پر مت پھینکئے ،جو آپ اکثر دانستہ مگر کبھی نادانستہ طور پر بھی کرتے ہیں۔ بس میٹاڈار میں ہوں تو کھڑکی سے باہر پھینک دیتے ہیں اورعام طور پربس میں ہی سیٹ کے نیچے ڈال دیتے ہیں ۔ کیا یہ اچھی بات ہے؟ اُدھر سے آپ کا کوئی دینی بھائی یا بہن، یا کوئی بھی انسان اولادِ آدم گذرتا ہے اور چھلکے پر پائوں پڑتے ہی پھسلتا ہے، دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ اُسے چو ٹ لگتی ہے یا اتفاقاً کبھی صاف بچ نکلتا ہے۔ آس پاس میں چلنے والے راہگیر، دوکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے بے فکر ے اور دوسرے ایک زور دار قہقہ لگالیتے ہیں۔ گر ا ہوا شخص اُٹھ کر کپڑے جھاڑتا ہے، چوٹ سہلا تا ہے اور ملتجی نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھتا ہے کیونکہ اُ س وقت وہ آپ کی طرف سے ہمدردی کے دوبولوں اور طلب گار ہوتا ہے جو آپ قہقہہ لگا کر اُسے ادا کردیتے ہیں۔
وہ سارے ٹھہا کا لگانے والے لوگ گر چہ اُس مجروح شخص پر ہنستے ہیں مگر حقیقی معنوں میں وہ اپنے آپ کی کھلی اڑاتے ہیں کیونکہ فرشتوں نے اُن کے نامۂ اعمال میں مائنیس انٹری ( منفی اندراج) ڈال دی ہوتی ہے۔ آخر کچھ اخلاقی تقاضے بھی تو ہیں کیا ہم کو اُس طرف دھیان دینے کی حاجت نہیں ہے؟ گر چہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر ایک مسلمان کو اولاً چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف ہی دھیان دینے کی حاجت ہے اور یہ باتیں بچوں کو بھی سمجھانے کی ہیں، مگر کیا کریں آج کل کے دور میں بچے بڑے اور بڑے بچے ہوگئے ہیں۔ کیا بڑے ہو کرآپ کی کوئی کمانڈ بچوں پر چلتی ہے،نہیں نا؟ تو پھر ٹھیک ہے چلیئے اور جھیلئے اُن کانٹوں کو جو آپ نے خود ہی بوئے ہیں۔ کاش! آپ نے اپنے بچے کو بائیک، موبائیل، فیشن دار ملبوسات، مختلف آرایشی سامان، میوزک، سسٹم اور بالوں کو چھتنار درخت یا چیل کا گھونسلہ بنانے کیلئے کریم خریدنے کیلئے رقم فراہم نہ ہوتی یا رقم دینے کے بعد صرف اتنا پوچھا ہوتا کہ اُس نے وہ رقم کس مصرف میں صر ف کر دی۔ کبھی کسی واقعہ پر اُس سے پوچھا ہوتا ،اُس سے مواخذہ کیا ہوتا کہ وہ کہاں جاتا ہے، کہاں ہوتا ہے ، کیا کرتا ہے، کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھا ہے ، موبائیل فون پر کس کے ساتھ گھنٹوں ہنس ہنس کرباتیں کرتا ہے۔ کلائیوں میں سہ رنگا دھاگا یا لوہے کا کڑا، کانوں میں مندریاں یا ٹاپس کیوں ڈالتاہے، گلے میں مالا یا لاکٹ کس مرض کا علاج ہے۔ اور لمبے لمبے سگریٹ پینے سے کیا صحت اچھی ہوجاتی ہے، تو بچے سنبھل جاتے، سدھر جاتے اور پھر شاید فرمان بردار بھی ہوتے۔ اپنی عزت ِنفس کا خیال رکھتے، آپ کے ساتھ اوروں کی بھی عزت کرنا سیکھتے اور وہی بچے کل قوم کے معمار ہوبھی سکتے تھے اور کہلاتے بھی جاسکتے تھے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اس لئے اس کے سوا میں اور کیا کہہ سکتا ہوں ؎
اپنے دامن کے لئے خار چنے خود ہم نے
اب یہ چبھتے ہیں تو پھر اُن سے شکایت کیا
………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر، موبائل نمبر:-9419475995