لیجیے جناب! ایک ہی جھٹکے میں ہندوستان کو تمام مسائل سے نجات مل گئی۔ اب ملک میں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے نوٹ بدلنے اور جمع کرنے کا۔ یہ عارضی مسئلہ اس لیے پیدا ہوا ہے کہ حکومت نے بد عنوانی اور کالے دھن پر ایک بھرپور وار کر دیا ہے۔ ایک ایسا وار جو بلیک منی جمع کرنے والوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوگا اور ملک سے کالے دھن کا صفایا ہو گائے گا۔ اس ملک کا ہر سنجیدہ اور ایماندار شہری بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں وہ حکومت کے ساتھ ہے اور اس کے کسی بھی قدم کا حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں جب بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی نے کرپشن اور بلیک منی کو اپنا انتخابی ایشو بنایا تو عوام نے کھل کر ووٹ دیا اور بی جے پی زبردست اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئی۔ نریندر مودی نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ غیر ممالک میں جمع کالا دھن بہت جلد واپس لایا جائے گا اور اتنا پیسہ واپس آجائے گا کہ ملک کے ہر شہری کے اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع ہو جائیں گے۔ لیکن ڈھائی سال گزر گئے اور اس محاذ پر حکومت کو کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ ہاں اس کی جانب سے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس کا دعوی ہے کہ یہ اقدامات بے نتیجہ نہیں رہیں گے۔ حکومت نے غیر ملکی بینکوں سے کالا دھن لانے کی کوششوں کے درمیان اندرون ملک جمع کالے دھن کو باہر نکالنے کے لیے پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں پر پابندی لگا دی، انھیں غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس اعلان کو بھی عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور اکثر لوگوں نے یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم کے اعلان کی حمایت کی کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور اس سے بلیک منی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حکومت نے، عوام کو دشواری نہ ہو اس کے لیے انتظامات بھی کیے اور بینکوں اور پوسٹ آفسوں سے پرانے نوٹ کے بدلے نئے نوٹ لینے کا بھی بند وبست کیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ لوگ اپنے پرانے نوٹ اپنے اکاونٹ میں جمع کرا سکتے ہیں۔ ان کا پیسہ ان کا اپنا ہے وہ انھی کا رہے گا۔ وزیر اعظم نے جس انداز میں اعلان کیا اس سے لوگوں کو یہی لگا کہ نوٹ بدلنے اور جمع کرنے میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ایک روز بینکوں کو تیاری کرنے کے لیے دے دیا گیا ہے اور دو روز اے ٹی ایم مشینوں کو دیے گئے ہیں۔ لیکن جب ایک روز کے بعد لوگ بینکوں پر پہنچے تو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا ہوا۔ لوگوں کو زبردست بھیڑ کا سامنا کرنا پڑا اور گھنٹوں لائن میں لگنے کے بعد کتنے نوٹ بدلے گئے صرف چار ہزار روپے۔ یہ چار ہزار کتنے دن چلیں گے۔ ظاہر ہے چند روز میں ختم ہو جائیں گے اور انھیں صبر آزما قطاروں میں پھر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پہلے دن تو لوگوں نے صبر سے کام لیا۔ لیکن دوسرے دن ان کے صبر کا پیمانہ کچھ لبریز ہونے لگا۔ کئی مقامات پر تو لوگوں نے زبردست غم و غصے کا اظہار کیا۔ دو روز کے بعد جب اے ٹی ایم مشینوں تک لوگوں نے دوڑ لگائی تو پتہ چلا کہ بہت سی مشینوں میں ابھی پرانے نوٹ پڑے ہوئے ہیں ان میں نئے نوٹ ڈالے ہی نہیں گئے اور جن مشینوں میں نئے نوٹ ڈالے گئے ہیں ان میں سے بہت سی تو دوپہر تک خالی ہو گئیں۔ بہت سے لوگوں کو گھنٹوں لائن میں لگنے کے بعد بھی بینکوں اور اے ٹی ایم مشینوں سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ کئی جگہ لوگوں نے اپنا غصہ وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگا کر اور ان کا پتلہ جلا کر نکالا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ایسے ویڈیو بھی پوسٹ کیے ہیں جن میں لوگ وزیر اعظم کو صلواتیں سنا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلیک منی کے خلاف یہ ایک عمدہ قدم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بغیر مناسب تیاری کے اس کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پہلے بینکوں اور اے ٹی ایم مشینوں میں نئے نوٹ بھر دیتی اس کے بعد یہ اعلان کرتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اچانک اعلان کر دیا گیا۔ ریزرو بینک کی جانب سے جو نئے نوٹ چھاپے گئے وہ دو ہزار کے اور پانچ سو کے ہیں۔ لیکن بینکوں سے ملنے والے پانچ سو اور دو ہزار کے نوٹوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پھر ان کا چینج کہاں کرائیں۔ بازار سے سو سو کے نوٹ غائب ہو گئے ہیں۔ اب جن کے پاس دو ہزار کے نوٹ ہیں وہ بھی خالی ہاتھ ہو گئے ہیں۔ پرانے نوٹ رکھنے والے تو کنگال ہو ہی گئے ہیں۔ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند ہونے کے بعد جہاں لوگ اس قدم کا توڑ ڈھونڈ رہے ہیں وہیں بہت سے لوگوں نے انھی نوٹوں سے جن کو وہ جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے اب چھٹکارہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بڑی تعداد میں ندیوں میں بہتے ہوئے پائے گئے اور کوڑے کے ڈھیر پر بھی دکھائی دیے۔ حکومت کے اس اعلان سے غریب بھی پریشان ہیں اور امیر بھی۔ غریب اس لیے کہ بہتوں کے پاس کوئی اکاونٹ نہیں ہے تو وہ اپنا پیسہ کہاں جمع کریں اور دوسرے یہ کہ دن بھر لائن میں لگ کر اگر نوٹ بدلوائیں تو ان کا کام متاثر ہوتا ہے۔ یومیہ مزدوری کرنے والے تو اور زیادہ پریشان ہیں۔ دولت مند اس لیے پریشان ہیں کہ وہ اپنا پیسہ اب کیا کریں۔ اگر بینک میں جمع کرتے ہیں تو ڈھائی لاکھ سے اوپر جمع کرنے پر ٹیکس بھی دینا ہوگا اور دو سو فیصد جرمانہ بھی۔ ٹیکس ہی سے بچانے کے لیے تو انھیں بینکوں میں جمع نہیں کیا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے پرانے نوٹوں کی خریداری شروع کر دی اور بھاری کمیشن پر انھیں بدلنے لگے۔ بہت سے لوگوں نے سونا خریدنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے سونے کی قیمت میں بے پناہ اچھال آگیا۔ اب محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن اس قدم کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ اس نے اسے عوام مخالف قرار دیا ہے۔ بی جے پی اس بارے میں اپوزیشن پارٹیوں کی نیتوں پر سوال اٹھا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ انھیں اس فیصلے سے کیوں پریشانی ہے۔ در اصل اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ الیکشن میں پیسوں کا اور خاص طور سے کالے دھن کا غیر معمولی استعمال ہو تا ہے۔ انتخابی مہم چلانے کے لیے جہاں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پیسوں سے ووٹ بھی خریدے جاتے ہیں۔ کانگریس، سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور بائیں بازو نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب کسی کے پاس قانونی کرنسی نہیں رہ گئی ہے۔ جب تک الیکشن کا وقت آئے گا اس وقت تک بھی زیادہ کرنسی باہر نہیں آپائے گی۔ ایسے میں سیاسی پارٹیوں کی تلملاہٹ غیر فطری نہیں ہے۔ لیکن بی جے پی کے لوگ اس سے بہت خوش ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا بی جے پی کو الیکشن میں پیسوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یا اسے الیکشن نہیں جیتنا ہے۔ یا اس کے پاس پہلے ہی پیسے پہنچ گئے ہیں۔ ظاہر ہے پیسوں کی ضرورت تو اسے بھی ہوگی اور الیکشن جیتنے کے لیے ہی یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ بی جے پی لیڈروں کے اطمینان کو دیکھ کر بہت سے حلقوں میں شکوک و شبہات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ دعوی غلط ہے کہ اس فیصلے کو بالکل راز میں رکھا گیا تھا۔ ان کو اندیشہ ہے کہ بی جے پی والوں کو پہلے ہی اس کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے اکاونٹ میں اعلان سے ایک روز قبل کروڑوں روپے جمع کر دیے گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی تصویر پوسٹ کی گئی ہے جس کے ہاتھوں میں دو ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں ہیں۔ اس تصویر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ یو پی بی جے پی صدر کی بیٹی ہیں۔ ان کو پہلے ہی نئے نوٹ کیسے مل گئے۔ کچھ اور بھاجپائیوں کو بھی زیادہ نوٹ ملے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آنے والی چیزوں کی صداقت پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر یہ دعوی درست ہے تو سوال جائز ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے یو پی الیکشن جیتنے کے لیے ہی یہ چھکہ مارا ہے۔ جیسا کہ ملائم سنگھ نے بھی دعوی کیا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت کے اس قدم کا کیا اثر پڑتا ہے۔ کیا واقعی اس سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچتا ہے یا پھر یہ بیک فائر کر جاتا ہے۔ ابھی تو بینکوں کے سامنے قطار بند لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوا ہے۔ اگر حکومت نے حالات کو نہیں سنبھالا، لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور بی جے پی کو الیکشن میں شکست ہو گئی تو اس پر مشرقی یوپی کی یہ دیہاتی مثل صادق آجائے گی کہ چوبے گئے تھے چھبّے بننے دوبے بن کر لوٹ آئے۔
�����