ا س وقت ہرپاکستانی بچہ، بوڑھا ،جوانم مرد ، خاتون حتیٰ کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی تقریباََ ۳۵۰۰۰ ۱؍روپے کے قرض میں جکڑا ہوا ہے ۔سوال یہ ہے کیا یہ قرضہ پاکستانی عوام نے لیا ؟کیا یہ قرض اہل وطن سے پوچھ کر لیا گیا؟ ملک کے لئے پہلا قرض کس نے لیا ؟ جہاں تک ہم پر غیر ملکی قرضوں کا سوال ہے تو یہ بوجھ موجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتوں سے ورثے میں ملا ہے ۔صدر ایوب کے حکومت سنبھالنے تک پاکستان پر تقریباً ۳۵۰ملین ڈالر قرض تھا جو کہ مملکت کی ابتدائی تعمیر نو پر خرچ ہوا ۔صدر ایوب کے دور حکومت میں ۱۸۰؍ملین ڈالر قرض واپس کردیا گیا تھا،اور اس دور میں بے شمار ترقی بھی ہوئی ،ڈیمز بنے جن سے آج تک بجلی مہیا ہوتی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان دوسرے ممالک کو قرض دیتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت میں بیرونی قرضے تقریباً ۶۳۴۱؍ملین ڈالر تک جا توپہنچے مگر کوئی خاص ڈیولپمنٹ نظر نہیں آئی سوائے ایٹم بم کے ابتدائی منصوبے کے۔ جنرل ضیاء کے جنگی دور میں بے حساب فوجی امداد کے ہوتے ہوئے بھی ملک تقریباً ۱۲۹۱۳؍ملین ڈالر کے قرضے میں ڈوب گیا ۔اس کے بعد بے نظیر اور نواز شریف کی ۱۰ سالہ جمہوربت آگئی اور ملک تقریباً ۷۹۵۰؍ ملین ڈالر کا مقروض ہو گیا اور صرف ایک موٹروے نظر آتی ہے- مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت میں ملکی قرضوں میں ۵ ہزار؍ ملین ڈالر کی ادائیگی ہوئی اور پیپلز پارٹی زرداری دور نے حد ہی کردی اور ملکی قرضے بڑھ کر تقریباً ۱۴۱۰۰ ؍ ملین ڈالر ہوگئے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دور تھا جس میں کوئی ترقی نہ ہوئی، بلکہ چلتے چلتے ملکی قرضوں کی رقم تقریباً ۲۸۰۰۰ ارب ڈالر ہوگئی ہے۔یہ کوئی حادثاتی معاملہ نہیں بلکہ سالہا سال حکومتی شاہ خرچیوں کا خمیازہ ہے جسے اب مملکت کے عوام بھگت رہے ہیں – پچھلی دہائی میں قرضوں نے ملکی معیشت کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے ،اب حال یہ ہے کہ لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لیناپڑ ر ہے ہیں ۔اگر کوئی ملک اس مقروض اور دیوالیہ مملکت کو نیا قرضہ دینے کو تیار نہ ہو ،اس صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان مزید قرضہ نہ لے اور قرضے واپسی کی کوئی تدبیر کرے۔
پور ی دنیا میں پھیلے ہوئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی جال جوکاسہ لیس حکومتوں کو پروجیکٹ بیچتے ہیں جو موٹر ویز ، میٹرو اور ون بیلٹ ون روڈکی طرح خوشنما ہوتے ہیں ،انہوں نے کبھی بھی ملکوں کوانسانی فلاح کے آئیڈیاز نہیں دئے یا اُن شعبوںکے لئے قرضہ نہیں دیا ،ان کی سودی معیشت جو قرضوں کے گرد گھومتی ہے اور حکومتوں کو اپنے سنہری جال میں جکڑتی ہیں ،انہی مہنگے منصوبوں کی وجہ سے ہے ۔ خوددیکھ لیجئے عوام بھوکوں مر ر ہے ہیں اورملک میں اورنج ٹرینیں اور جنگلا بسیں چل رہی ہیں جن پر حکومت کو اربوں روپے سبسڈی دینا پڑ رہی ہے ۔ سابقہ حکومتوں نے اس طرف سوچا ہی نہیں ،اگر انہوں نے لئے گئے قرضہ جات ملکی معیشت کی اصلاح کیلئے خرچ کی ہوتی تو اور بات تھی ،لیکن یہاں تو یہ معاملہ یہ تھا کہ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ماں قرضہ لے کر ڈنر سیٹ خرید لے۔اور تو اور بڑے بڑے بزنس مین ،سیاست دان،بیروکریٹس ، کڑوروں کے قرضے لے کر انہیںمعاف کروا کر سکون سے بیٹھے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مہنگائی اور قرض کا توکوئی توڑ حکومت یا عوام کے پاس نہیں اور نہ ہی یہ کم ہونے والی ہے ، البتہ ایک کام ہو سکتا ہے کہ عوام اپنی عادات بدل دیں، اپنے خرچے کم کریں ،چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں ، سادگی اختیار کریں ، بچت کرے، کفایت شعاری سے خرچیں ۔ یہ بدلاؤ ملک اورقوم کے کام آئے گا ،ملکی انڈسٹری چلے گی، زرمبادلہ بڑھے گا، ملک اتنا خودکفیل ہوگا کہ قرضے نہیں لینے پڑیں گے ، مہنگائی کم ہوگی ،ملکی مصنوعات کا استعمال کریں تو دراآمدات میں کمی ہو گی ، جواس سال ۶۰ ؍ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں ،جب کہ برآمدات صرف ۲۴ ؍ارب ڈالر کی ۔ہم اپنے ملکی ذرائع، ملکی مصنوعات کو بڑھائیں ،برآمدات زیادہ کریں تاکہ ڈالر نیچے آئے ۔وطن عزیز کو شرح نمو میں اضافہ کیلئے سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو زیادہ کرنا ہوگا جس سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور ملکی معیشت پستی سے باہر نکل سکتی ہے۔پاکستان کو بیرونی ایڈ سے ٹریڈ کی طرف گامزن ہونا پڑے گا،فصلوں کی پیداوار بڑھانے ،ڈیری لایئوسٹاک اور فشریز میں مارکیٹنگ پر توجہ دینی ہوگی۔حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم زرعی ملک ہیں یا انڈسٹریل تاکہ کوئی روڈ میپ ملے ،کوئی پالیسی مرتب ہو اور قوم مستقل طور پر کشکول لئے بھکاری نہ رہے۔اس کے علاوہ میگا منی لانڈرنگ کو روکنا ہوگا اور لوٹا ہوا پیسہ دیار غیر سے واپس لانا ہوگا اور ان بد ترین کرداروں کو عبرت ناک سزائیں دینا ہوں گی جنہوں نے ملک کو اپنی عیاشیوں کے لئے لوٹا۔یہ ایک ایسی دیمک ہے جو ملک کو اندر ہی اندر کھوکلا کررہی ہے۔ برے معیشی حالات سے نمٹنے کے لئے شفافیت ،فرض شناسی اور جرأت سے کام لیا جائے، غریب عوام کو چھوٹے موٹے دھاڑی پر لگائیں، حکومت چھوٹی چھوٹی انڈسٹریاں لگائے ،او ر قریباََ ۶ کڑور تنومند ،ہشاش بشاش نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے اور نوکریاں دے جیسے چین نے غربت ہٹانے کے لئے کیاتھا، زکوۃ کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ اسی کی بدولت ریاست مدینہ میں ،ایک وقت آیا تھا جب کوئی بھی غریب نہ تھا، خوشحالی تھی۔
Feedback@[email protected]