مرکزی حکومت کےنا م عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے بعد بیرون ریاست کشمیریوں پر حملوں اور انہیں مارپیٹ اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات پر کم وبیش روک لگ گئی تھی لیکن گزشتہ روز اُترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں دن دہاڑے کشمیری چھاپڑی فروشوں کی مارپیٹ کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دائیں بازوں کے انتہا پسند حلقے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے درپے ہیں۔ا س حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو بیرون ریاست کشمیریوں کے تحفظ کے بارے میں فکر و تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔ تاہم ان ویڈیوز کے توسط سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ مقامی لوگوں نے متاثرین کو بچانے کی کوشش کی اور حملہ آوروں کو روکنے اور انکی کاروائیوں پر کھل کر اعتراض جتانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ یہ ایک حوصلہ افزا ء تبدیلی ہے، جس کو سراہاجانا چاہئے۔ اس سے قبل چھتیس گڑھ صوبہ کے رائے پور علاقہ میں زیر تربیت کشمیری طلبہ پر تشدد کی کاروائی کےخلاف عوامی حلقوں میں زبردست برہمی کا اظہار کیا گیا کیونکہ یہ اُس سلسلہ کا ایک تسلسل نظر آرہا تھا، جو گزرے مہینوں میں دیگر کئی ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور تاجروں کے ساتھ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران ہریانہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے بعدپھر چھتیس گڑھ اور اب لکھنومیں کشمیریوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں، خواہ وہ طالب علم ہو ں ،تاجرو ہوں یا ہنر مند نوکری پیشہ، کےلئے حالات مشکل ہوتے جارہے ہیں اور بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر کی جانب سے پیش آنے والے ان واقعات میں عام طور پر مقامی انتظامیہ بروقت اور غیر جانبدارانہ انداز میں کاروائی عمل میں نہیں لاتی، جس کی وجہ سے ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہوتے ہیں لیکن حال ہی میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے مرکزی حکومت کو ہدایت کے بعداس میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے اور لکھنو واقع پر اطلاع ملنے پر پولیس نے 4افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔ لیکن کیا اب ا ن حملہ آوروں کو اپنے کئے کی کوئی سزا ملے گی؟ یہ کہنا ابھی غالباً قبل از وقت ہوگا۔ تاہم حکومت کی بروقت کاروائی سے اُن کشمیریوں کے اعتماد میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے، جو گھروں سے ہزاروں کلو میٹر دور خوف و تذبذب کے عالم میں مبتلاء ہیں۔ اسی طرح ایک اور واقعہ میں راجستھان میں بھی بانڈی پورہ کے چھ نوجوانوں کو شکوک و شبہات کی بنا پر گرفتار کیا گیاتھا ، حالانکہ وہ کاروباری سلسلہ میں اُس علاقہ سے گزر رہے ہیں،تاہم انہیں بعد میںبھی ضروری پوچھ تاچھ کے بعد رہا کیا گیا ۔ یہ ساری کاروائیاں خوش آئند ہیں اور ان پر اطمینان کا اظہار کیا جانا چاہئے ۔ تاہم ریاست سے باہر کشمیریوں کےخلاف ایسا ماحول کیوں تشکیل پا رہا ہے اور اسکی حوصلہ افزائی کن حلقوں سے ہو رہی ہے انکی نشاندہی کرکے انکے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہےاور اس کے لئے کلیدی ذمہ داری ریاستی حکومت پر عائد ہو تی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے، جس میں الیکٹرانک میڈیا پیش پیش ہے، کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ ،سیاسی تاریخ اور سیاست کےحوالے سے متواتر زہر افشانی کرکے کچے اذہان کو آلودہ کرکے کشمیر دشمنی پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس یورش میں انہیں نئی دہلی میں برسراقتدار پارٹی کے کچھ قائدین کی طرف سے بھر پور اعانت مل رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی مرکزی وزراء اور اعلیٰ سیکورٹی افسران کی جانب سے بار بار کی بیان بازیوں سے اس پروپگنڈا مہم کو دست و بازو فراہم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بھارت بھر میں اس وقت جو سیاسی صف آرائیاں ہو رہی ہیں اس میں کشمیر اور کشمیریوں کو ایک ایشو بنا کر سیاسی عزائم کی تکمیل کےلئے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ملک بھر میں سنجیدہ فکر طبقہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے پریشان ہے اور اس شبہ کا برملا اظہار کر رہا ہے کہ کشمیر میں حالات کی مسلسل خرابی کے ساتھ کئی حلقوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہو رہے ہیں ۔ گزرے ایام میں کرناٹک اور آندھرا میں بھی کشمیریوںکی ہراسانی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبکہ مہاراشٹر کے شہر پُنے میں بھی کشمیری تاجروں، طلبہ اور کامگاروں کو پولیس سے رابطہ قائم کرکے ہراسانی سے حفاظت کےلئے امداد و اعانت طلب کرنا پڑی۔ ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں کی حفاظت اور انہیں ہراسان کرنے والوں کےخلاف کاروائی کرنے کےلئے مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستی سرکاروں کو آمادہ کرے۔ وگرنہ ایک جانب کھیل کود، ادب و ثقافت اور تفرریح کے نام پر ریاستی طلبہ اور نوجوانوں کو بیرون ریاست لے جا کر وہاں کے تمدن اور سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے پروگراموں، جن پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، کا مفاد اور مقصد کیا رہتا ہے۔ اس کےلئے ریاستی سرکار کو جواب دینا چاہئے، کیونکہ فی الوقت ریاست میں برراہ راست مرکزکی حکومت ہے ۔ ایسا کیوں ہے کہ وہ ان ریاستوں کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پار ہی ہے، حالانکہ تصادم آرائی کی سیاست کو ترک کرکے افہام و تفہیم کو بڑھاوا دینا ہی وقت کی ضرورت ہے۔لیکن جس عنوان سے کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑ کر انہیں نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے، اسکے رہتے افہام و تفہیم کے ماحول کےلئے کون سی جگہ باقی بچتی ہے۔گورنر انتظامیہ کو کم از کم ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلئے ہمہ تن مہم شروع کرنی چاہئے، جو بیرون ریاست کشمیریوں پر حملے کرنے میں ملوث پائے جائیں۔ وگرنہ ریاستی عوام کے اعتماد میں مزید کمزوری پیدا ہونے سے صورتحال کی مزید ابتری کا اندیشہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔