ہم نامی غالبؔ طنزومزاح

محمد اسداللہ
یہ نا چیز غالبؔ کا ہم نام ہونے کا قصور وار ہے اور سزا اس طرح بھگت رہا ہے جیسے سِند با داپنے کاندھے پر ایک عدد بوڑھے کو اٹھائے پھرتا تھا ، جہاں ہمارا نام آیا، نام لینے والا آخرمیں فوراً غالبؔ ٹانک دیتا ہے۔ خداجانے لوگ اس طرح غالبؔ کی روح کو شرمند کرنا چاہتے ہیں یا ہمیں روحانی اذیت پہنچانے کے درپے ہیں۔
یہ خاکسار اور دنیا بھر کے وہ تمام افرادجن کا نام محمد اسداللہ ہے، ان لوگوں سے اکثر پریشان رہتے ہیں جو ہمارا نام پکارتے یا لکھتے وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس نام میں کچھ کمی رہ گئی ہے چنانچہ وہ اس کے آ گے خان یا غالبؔ کا لاحقہ لگا نا ضروری سمجھتے ہیں ؛
یہ پوچھے بغیر کہ آیا آ پ واقعی خان صاحب ہیں یا نہیں ،آ پ کو اپنے نام کے آ گے لفظ خان کے اضافے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟یا آ پ اسے ان لطائف میں تو شمار نہیں کریں گے جو خانوں کے ساتھ مشہور ہیں ،یا خان نہ ہونے کے باوجود آ پ اپنے آ پ کو خان صاحب پکارے جانے پر ان ہی کی طرح بر ہم تو نہیں ہوں گے ۔
رہا معاملہ ہمارا ، تو یہ بتادیں کہ اپنے والد صاحب کی طرف سے ہم ’نان خان‘ ہیں یعنی شیخ ہیںاورکوئی سر نیم کی تفتیش پر سر ہوجائے تو اسی نام سے یاد کئے جاتے ہیں ۔البتہ والدہ کی طرف سے بہرحال پچھلی نسلوں میں خانوں کے خانوادے سے ہمارا بھی تعلق رہا ہے گویا رگوں میں خان نسل کاخون جاری ہونے کے باوجود اس لفظ کے سہارے شیخی نہیں بگھارتے ،مگر غصے کا آ ناتو فطری ہے یا اس خون کی تاثیر کہئے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی ہمیں خان کہہ کر مخاطب کرے تو خانوں کے ساتھ وابستہ سارے لطائف کے ساتھ خودکو جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔ لطائف کو کسی طرح برداشت کر لیں تب بھی سرٹیفیکیٹ کی رو سے ہم اپنے آ پ کو خان کس طرح ثابت کر یں؟ اور اس پر کوئی پھبتی کس دے کہ جناب آ پ کب سے خان ہوگئے تو اس طنز کا کیا جواب دیں گے ؟۔اسی لیے’ خان ‘سے ہم برائے نام دو ر ہی رہتے ہیں اس کے باوجود ہمارا نام آتے ہیں لوگ کبھی پکڑ کر ہمیں خان بنا دیتے ہیں اور کبھی غالب ؔ جب کہ ہم نہ ا س طرف ہیں نہ اس طرف ۔ سیدھے سادے نام کی حفاظت بہر حال ایک بڑا مشکل مسئلہ ہے ۔
(رابطہ۔9579591149 )