ہم بھول گئے ہر بات مگر! غور طلب

حمیرا فاروق

ہر انسان اس لفظ کو با آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ ہم سب کچھ بھول گئے چاہے وہ یادیں ہو ملاقاتیں، باتیں ہو یا خوشی لیکن حقیقت میں انسان مکمل طور پر کسی چیز کو بھولتا نہیں ۔ہر ایک بات دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں محفوظ ہوتی رہتی ہے، جس کو پھر سے واپس لانے کے لیے انسان کو پرانا یا گزرے ہوئے کل کو یاد کرکے ہی یاد دلانا پڑتا ہے، تو یہی لمحات تو ہمارے موجودہ خوشیوں کو سلب کرکے ایک قاتلانہ عمل انجام دیتا ہے ۔بہرکیف وقت جیسا بھی ہو، آخرکار گزر ہی جاتا ہے ۔وقت کا گزرنا ہر درد کی دوا ،ہر غم و مرض کا واحد نسخہ ہے۔ لیکن جو چیز اللہ نے انسان کے اندر رکھی وہ ایک طرح کی عظیم الشان نعمت ہے، جس کا شکر ادا کرنا ہر بندے پر لازم بنتا ہے ۔یہ سوچ کر کہ اگر خدانخواستہ ربّ نے انسان کے اندر یہ قوت نہ رکھی ہو تو میرے خیال سے انسان موت سے قبل فوت ہو جاتا ۔اس لیے بھول جانا بھی ایک نعمت ہے ،چاہے وہ بولنا پھر ہمارے گزرے ہوئے وقت کی مصیبتوں، غموں اور خوشیوں کا ہی کیوں نہ ہو ۔ انسان کو اس ضمن میں پریشان ہونے کے بجائے اظہار خوشی کرنا چاہئے ۔یہ ایک طرح کا خیر ہے کہ انسان کے اندر ربّ العزت نے اگر یہ خیر نہ رکھی ہوتی تو شاید ہی کوئی انسان اپنے جینے کا حقیقی مزہ چکھ سکتا اور نہ ہی دنیا کے شر سے محفوظ رہتا۔ہم تو پھر اپنے احباب کے اموات پرحزن و ملال کرتے کرتے ہماری موت بھی واقعہ ہوئی ہوتی ۔لیکن اللہ کا کرم کہ بھولنے کا اختیار رکھا۔
ہر ایک چیز کی اپنی خصوصیات ہوتی ہے ،کوئی ہمارے اندر جسمانی قوت ،خوبصورتی بیدار کرتا ہے تو کوئی ہمیں بدصورت بنا دیتا ہے ۔اس کی مثال اگر دیکھی جائے تو انسان غم میں مبتلا ہو کر روتا ،سر پھاڑ دیتا ہے۔ فاقہ کشی اختیار کر کے اس کی خوبصورتی میں بھی کمی پڑتی ہے جبکہ دوسری طرف سے انسان خوشی میں رہ کر جھوم جھوم اٹھتا ہے اور دنیا کی ہر چیز سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور یہ چیزیں خود بخود انسان کے چہرے کی رونق،مسکان کو بڑھا کرانسان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے ۔
یہ ٹھوس حقیقت ہے ،جس کا واسطہ ہر فرد کو کرنا پڑتا ہے ۔آپ کو کبھی کسی فرد سے کبھی خیر مل جائے تو اسے کبھی مت بھولنا اور خیر بھی انسان کا اُسی میں ہے کہ وہ بس اچھی چیزوں کو یاد رکھیں اور غلط اورشَر والی چیزوں ۔لوگوں کی دی ہوئی تکلیفوں کو انسان اس قدر بھول جانا چاہیے کہ جیسے کچھ کبھی ہوا ہی نہیں ، یہ بھی اخلاقِ حسنہ میں آتا ہے۔ برعکس اس کے کہ کوئی انسان اس بات کو دل میں لیے بیٹھے کہ فلاں وقت میں اُس شخص نے میرے ساتھ بُرا سلوک کیا، اب ان کو اس کے عوض اس کی پاداش لیا جائے، یہ رزیل خصائل میں آتا ہے ،جس کا ازالہ کرنا ہر ایک اشرف المخلوقات کے لیے ضروری ہے ۔بہترہے کہ وہ غلط کاموں کو بھول جائے، یہ سوچ کر کہ اللہ اس کا اجر دے گا اور ایک مسلمان کویہ چیر زیب نہیں دیتی کہ دوسروں کے اوپر وہ سفّاک بنے ۔جب انسان یہ کردار اپنے اندر بدرجہ اتم پیدا کرے اور حسن عمل کریں۔ ہم تو کیا، پوری دنیا اس کی شخصیت کو کبھی نہیں بھولے گی ، مگر شرط یہ ہے کہ وہ غلط باتوں اور غلط کاموں کو بھول جائے۔علاوہ ازین وہ فعّالی طور سے بھی اس بات کا ثبوت دیں کہ جن چیزوں سے انسانیت کو ٹھیس پہنچے، اس نے بھول دیا۔شَر کو ایسے خیرآباد کریں کہ خود بخود زبان سے نکلے کہ ہم تو بھول گئے ۔
[email protected]