انتشار و افتراق ہر صورت میں نقصان دہ

اس دورِ جدید میں دنیا بھر میںآئے روز پیش آنے والے حالات و واقعات پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو ہر ذی حِس و باشعور فرد بخوبی اس بات کو محسوس کررہا ہے کہ ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیںوہ انتہائی پُرآشوب ہے۔ ہر طرف سے سازشوں کا دور دورہ ہے، ایک دوسرے پر غلبہ پانےاور اپنے زیر نگین رکھنےکی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کہیں پر لوگوں کی تقسیم در تقسیم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی جارہی ہے ،کہیں پر لوگوں کو علاقائی سطح پر محدودکیا جا رہا ہےاور کہیں پرکسی قوم کو نسلی لسانی عصبیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں اُمتِ مسلمہ کا تصور مدھم پڑ رہا ہے۔حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین ِ اسلام کسی صورت میںانتشار و افتراق کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس کی اجازت دیتا ہےجبکہ اسلام امت کے اتحاد و یکجہتی ،فکری و نظریاتی ہم آہنگی اور نظم و ضبط پر بے انتہا زور دیتا ہے۔اسی لئے قرآن و سنت میںانفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے اسلوب و آداب بیان کئے گئے ہیں تاکہ اہل ِ ایمان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف رونما نہ ہونے پائے۔مگرآج ہم امت مسلمہ کی زبوں حالی اور کسمپرسی پر نگاہ دوڑائیں اور اس ذلت و رسوائی کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو بدقسمتی سے یہ بات عیاں وبیاں ہوتی ہے کہ امت اپنے اصل منہج سے دور ہو گئی ہے،جس کی وجہ سے رب کی رحمتیں ہم سے دور ہو گئی ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ جب تک اہل سلام فکری و نظریاتی بنیادوں پر استوار رہے، دنیاوی ترقی و عروج ان کا مقدر ٹھہرے لیکن جب اسلام کی نظریاتی اساس یعنی قرآن و حدیث سے رو گردانی کی گئی اور من چاہے افکار و نظریات پر مبنی فرقہ وارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو وحدت ِاُمت پارہ پارہ ہوتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین اسلام جو ایک اللہ اور ایک رسول اللہؐ کے فرامین پر مبنی ایک امت کا تصور لئے ہوئے تھا ،بٹواروں کا شکار ہوتا چلا گیا اور مختلف اسلام دشمن قوتوں کی رختہ اندازیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔حالانکہ دین ابتداء سے ایک تھا ،آج بھی ایک ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا ۔لہٰذااب فیصلہ خود ہمیں کرنا ہے کہ آیاہم اسی طرح نسلی لسانی علاقائی عصبیتوں اور مذہبی فرقہ واریت کا شکار رہ کر تباہی و بربادی کی جانب عزم سفر ہو کر مکمل خاتمہ چاہتے ہیں یا خالص قرآن و سنت کے پاکیزہ دامن سے وابستہ ہو کر ان تمام لعنتوں سے اپنے دامن جھٹک کر دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی چاہتے ہیں۔ انتہائی ضرورت اس بات کی ہے ہم ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی اختیار کریں اور ایک دوسرے کا عزت و احترام کریں کیونکہ باہمی انتشار و افتراق بہر صورت ضرر رساں ہےاور ثابت بھی ہورہا ہے۔ یاد رکھیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کلمہ گو مسلمان کی عزت و حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ قرار دی ہے ۔اس لئےآج کے اس انتہائی پرفتن دورمیں تمام ترفتنوں اور آفات سے محفوط و مامون رہنے کا بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خالص کتاب و سنت سے والہانہ وابستگی، اتحاد تنظیم اور باہمی اخوت و محبت ہے،ساتھ ہی امت مسلمہ کو اِسی اصول پر کارفرما رہنا ہے کہ دین کامل و اکمل ہے اور اس میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ جیسا کہ خود خالق کائنات نے سورۃ المائدہ میں تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاہے: ’’آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا او رتم پر اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔‘‘گویا سرور عالم ؐکی حیات طیبہ میں دین مکمل ہو گیا اور ہدایت کی تکمیل ہوگئی اور اس دین یعنی قرآن و سنت کو اللہ نے امت مسلمہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ قرار دیا ۔بے شک اللہ تعالیٰ جو ہمارا خالق و مالک ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ ہماری دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کن امور کی بجا آوری میں پنہاں ہے۔ اُس نے رحمت ِ عالم ؐ کو بحیثیت ختمی مرتبت مبعوث فرما کر ہمارے لئے دین کا اکمال و اتمام فرما دیا اور رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کی دنیاوی کامیابی و کامرانی اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی حیات جاودانی کے لئے قرآن و سنت میں نسخہ کیمیا عطا فرما دیا، تاکہ بنی نوع انسان اس سے فیض یاب ہو کر اپنے خالق و مالک کے احکام اور اُس کے آخری پیغمبر ؐ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہم کنار ہو۔