! ہمارےگھریلو اقدار اور ہمارا معاشرتی کردار فکرو ادراک

شیخ ریاض احمد سلفی

گھر کو بنانے میں زندگیاں صرف ہو جاتی ہے اور اسکے پیچھے وہ مخلصانہ جذبات جو ایک شادی شدہ مرد اور عورت اس کے بنانے میں صرف کرتے ہیں، اسکی نظیر اور احساس کو ناپنا ہر ایک انسان کےبس کی بات نہیں۔ امیر اپنے طریقے سے اور غریب اپنے طریقے سے اس گھر کی بنیاد رکھتا ہے۔ لیکن جذبات اور احساسات نہ امیر ہو سکتے ہیں نہ غریب۔ ایک انسان کی بنیادی ضرورتوں میں گھر کا ہونا لازمی ہے۔ گھر انسان کو تحفظ عطا کرتا ہے اور اسکے بال بچے اسی گھر میں پھولے پھلتے ہیں، باوجود اسکے ہر گھر بنانے کی داستانیں الگ ہوں، لیکن اس کی بنیاد اخلاقی تقاضوں کو مد نظر رکھ کرہی ڈالی جاتی ہے۔ گھر ایک ایسے سماج کے قیام میں کلیدی کردار کر سکتا ہے، جہاں پر انسانی اقدار اوراخلاقی معیار کو بلندی حاصل ہو سکتی ہے۔ نشرطیکہ گھر بنانے اور بسانے والے اعلیٰ کردار کے مالک ہوں۔ اگر خدانخواستہ سماج کا یہ حصہ اخلاقی گراوٹ میں ملوث ہوا، تو اسکے شَرسے نہ اس گھر کے مکین محفوظ ہو سکتے نہ سماج محفوظ رہ سکتا ہے کیونکہ گھر سماج سے کبھی الگ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا گھر خود ایک سماج کی مانند ہے تو کوئی مزائقہ نہیں۔
گھر میں بسنے والے افراداکثر سماج کے ضوابط و قوائد کا خیال اور عزت و احترام کرنے میں کوشاں رہتےہیں اور سماج کی بہبودی، اصلاحی اور فلاحی کاموں میں اپنا رول بخوبی نبھاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ سماج ایک چمن کی مثل ہے جہاں پر ہر قسم کے پھول اور مختلف انواع کے خوشبوئیں محسوس کی جاتی ہیں۔ اب اس سماج کو اچھا اور گندہ بنانا صرف ایک فرد کا کام نہیں بلکہ ہر گھر بنانے والا انسان اس عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ،چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس عمل میں ہر انسان برابر ہے۔ عورت اگرچہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتی ہو، لیکن وہ اس سچائی سے ہرگز کنارہ کش نہیں ہوسکتی کہ اسکا رول مرد کے رول سے کئی گنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جسطرح گھر کے بنانے میں عورت کا مقام اور رول مرد سے کئی گنا بڑا ہوتا ہے ،اُسی طرح سماج کی تعمیر میں اُسکا رول مرد سے زیادہ ہے۔
قرآن میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کا مشہور و معروف قصہ درج ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیمؑ نے نہ صرف عورت کو گھر کے دہلیز سے تعبیر کیا بلکہ گھر میں رحمت اور برکت آنے کا سبب بھی اُس کے اخلاق حسنہ اور سعی کو ذریعہ ٹھہرایا۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عورت کا مقام و مرتبہ ایک مرد سے نسبتاً ممتاز اور بلندو بالا ہے۔ چنانچہ جس عورت کے ذہن میں یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ وہ مرد سے کمتر ہے، اس کو بلا تعصب کے اپنے کردار کے متعلق پڑھنا اور پڑھانا چاہئے۔ اگر ایک گھر کی رحمت اور برکت عورت کے کردار پر منحصر ہے تو بتائیے اس سماج کی برکت شان و رحمت کا کیا کہنا، جس میں ایک نہیں بے شمار عورتیں گزر بسر کرتی ہوں۔ میری عزیز بہنوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنا کردار اور اسکی اہمیت کو پہچانیں،جوکہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ جہاںایک گھر عورت کے بغیر ویران ہو سکتا ہے،وہیں سماج بھی تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔ جہاں عورت اپنا کلیدی کردار نبھانے میں کوتاہیوں کا شکار ہو ،وہاں بُرائیاںاور خرابیاں ہی جنم لیتی ہیں ۔ بچوں کی اخلاقی اور تہذیبی تربیت ماں سے شروع ہوتی ہے کیونکہ ماں ایک انسان کی پہلی مدرس، استاد اور رہنما ہوتی ہے۔
دوسرا کردار باپ سے شروع ہوتا ہے۔خالق کائنات نے مرد کو عورت کو قوام کہا، اسلئے نہیں کہ عورت کو مارے پیٹے اور بے عزتی کرے بلکہ اس لئے قوام بنایا تاکہ رحمت اور برکت کے اس منبع اور قلعہ کی حفاظت اور عزت افزائی ہو سکے۔ ایک مرد کی سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اُسی کے پیٹ سے نشونما پاکر وہ اس دنیا میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عورت اسکے پرورش کا اولین فرض ادا کرتی ہے اور اپنی ساری آرزوئیں، تمنائیں اور خواہشوں کو بالائے تاک رکھ ہمیشہ اُس کی فلاحی اور اخلاقی تربیت کرنے میں کوشاں رہتی ہے۔ مرد کی ذ مہ داریاں بہت ہی حساس قسموں پر مبنی ہیں، گھر کی اقتصادی اور تعمیراتی کاموں کا اکیلا ذ مہ دار مرد رہتاہے۔ اپنی بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد نے اپنا اولین فریضہ سمجھا ہے۔ مگر ایک مرد کی اخلاقی اور بنیادی ذ مہ داری ہے کہ وہ اپنے کمانے کا ذریعہ گرچہ کم ہو، حلال طریقوں سے کمانے میں بضد ہو، کیونکہ جو بیج وہ بوئے گا،اُسے ویسا ہی پھل ملےگا۔ اگر آپ میٹھا بیج بوتے ہو اور صاف وشفاف پانی سے اسکی نشونما کرتے ہو، تو میٹھا ہی پھل مقدر بن سکتا ہے اور اگر اسکے برعکس پودےکی نشونما کھٹے بیج اور گندے پانی سے ہو، تو خودہی فیصلہ کرلو ، پودا کیسا ہو سکتا ہے۔ جن بچوں کی نشونما حلال کمائی سے ہو،وہ بچے سماج کے لئے اخلاقی بلندی کا باعث بن سکیں گے ۔ اور جن بچوں کی نشونماہی حرام غذا اور غیر اخلاقی طرز سے ہو، اُن سے سماج کے لئےکسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔
دوسری اہم بات، ایک مرد کو اس گمان میں کبھی نہیں رہنا چاہئے کہ وہی اپنے بال بچوںکی کفالت کا ذریعہ ہے۔جبکہ سچائی بالکل اس کے برعکس ہے۔کفالت کی ذمہ داری خالق کائنات نے اپنے اوپر عاید کی ہے
اور وہ کبھی کسی کو بھوکا نہیں سُلاتا، چاہے اس انسان کا کوئی کفیل ہو یانہ ہو، اور یہ بات ایک مرد اپنے اوپر عائد کرے کہ عورت کی عزت و اکرام کرنے میں ہمیشہ پہل کرے تاکہ دوسرے بھی اِس ہستی کی عزت واکرام کی نگاہوں سے دیکھیں، جس سے اسکا اپنا مقدر جڑا ہوا ہے۔ ایک عورت کی بے عزتی کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنی ماں ، بہن اور بیٹی کی بےعزتی کررہے ہو۔اولاد کا اولین فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے والدین کی اطاعت اور تابعداری کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں کیونکہ والدین اس دنیا میں سب سے عظیم نعمت ہے، جس کی عزت اور اکرام کرنا جنت ملنے کی بشارت دیتا ہے۔ جن کی چہروں کو محبت سے دیکھنا حج کرنے کے برابر ہے۔ جن کی دعائوں سے تمام مشکلیں آسان ہوتی ہیں اورجن کی رہنمائی کامیابی حاصل ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی جہاں ماں کے پیروں تلے جنت ہے، وہیں جنت کی چابی باپ کو کہا گیا ہے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ایک گھر کے رہنے والے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور اُن پر عمل پیرا ہوجائیں ۔سماج کی بنیاد اگر اعلی وارفعی اخلاقی اور ان تمام اصولوں پر مبنی ہو، جن کی نشاندہی خالق کائنات نے اور محسن انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو، تو اس سماج کے گلی کوچے اور گھروں کی حفاظت کا ذمہ خالق کائنات خود لیتا ہے اور وہ سماج ہمارا مقدر بن سکتا، جسکی تمنائیں ہر فرد ہر وقت کرتا رہتا ہے، جس سماج میں انصاف اور عدل کا دوردورہ ہو اور ان تمام اخلاقی، تہذیبی اور سماجی گراوٹ سے محفوظ اور ماموں ہو۔
[email protected]>