ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے فہم وفراست

 ڈاکٹر فلک فیروز

انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمین بھی چاہے دو گز کفن کے بعد (کیفی اعظمی )
دل کے پنجرے میں بے شمار خواہشیں مقید رہتی ہیں ،کچھ بہ قید حیات رہ جاتی ہیں اور کچھ حیات رہ رہ کر بھی بے گور وکفن گمنامی کی صورت میں بے نام منزلوں ، نام نہاد راستوں ،اعلی مکانوں ،کھلے میدانوں ، نامور گلیوں، خوبصورت پارکوں ،سبزہ زاروں ،بہتے ابشاروں میں معصومیت کے ساتھ بہہ جاتی ہیں ۔ہزاروں خواہشوں پر اگرچہ دم نکل بھی جاتا ہے لیکن آنکھیں نم ہوکر یوں سوکھ جاتی ہے گویا زندگی میں تمام ارمان نکل نکل کر بھی باقی ہی رہ گئے ہیں۔
حسرتوں کے ویرانوں سے گزر جانے کے باوجود بھی حسرتیں تازہ بہ تازہ انسانی زات کو نیے راستے کھوجنے کی صلاح دیتی ہی ہے ،جہاں سے پانی کی ندیاں بہہ کر سوکھی راہیں نم ہوجاتی ہےجو زندگی کاسوزدروںبن جاتاہےاورنئےچشمےپھوٹ جاتےہیںجن کی امیدیںکبھی بھرآتی ہیںاورکبھی بھرنہیںآتی ہیں۔
خواہشیں موسمی ہواوں کی مانند ہوتی ہیں جو آجاتی ہے اور چلی جاتی ہیں لیکن بعضے آنے کے بعد جانے کا نام ہی نہیں لیتی ہے ، یوں کہیے کہ جانے تک بھی جانے کو تیار ہی نہیں لیکن کیا کیجیے بلا اس امید کا،جس پر پوری دنیا کا کارروبار کھڑا ہے، جو آدمی کو آس رکھنے پر بضد رہتی ہیں جسکی باہیں واں ہوکر زلفیں عنبریں بن جاتی ہے،یقین محکم ہو جاتا ہے ،صبر پختہ ہو جاتا ہے ، خیالات سنجیدہ ہو جاتے ہیں ،راستے آسان بن جاتے ہیں ،رشتے مضبوط ہوجاتے ہیں،گماں برباد ہوجاتے ہیں،شک پر یقین غالب آتا ہے ،وہم کے تصرفات خرچ ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس طرح سے نہ جانے کہاں سے ہزاروں خواہشیں جنم لیتی ہیں ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ( غالب )
خواہش کے مدارج مختلف ہوتے ہیں ۔کچھ سنگلاخ راستوں سے ہوکر کھنڈرات اور ویرانوں سے گزر جاتے ہیں ،کچھ بہتے پانی کی روانی کی مانند بہہ جاتے ہیں نیز کچھ اصولوں کی بلند دیواروں کو پھاند کر چلے جاتے ہیں ۔یوں تو خواہش بظاہر ایک مختصر احساس ہے لیکن بباطن یہ احساس کاینات کی وسیع و عریض سطح پر پھیلا ہوا ہے، جس کا دامن کانٹوں سے بھرا پڑا ہے، جس کے معانیاتی اطراف کا کویی قیدی اصول ممکن نہیں ہے بلکہ ہر پہلو اپنا ایک الگ الگ اصول قایم کر جاتا ہے ،جس سے اس کا اطلاقی وجود پھلتا پھولتا نظر آتا ہے۔ خواہش نام کی بنیاد پر کتنی زندگیاں برباد ہو جاتی ہے جو نہ جانے کہاں پر اپنا نام رقم کرنا چاہتی ہے، یہاں تک کہ رقم ہو جانے کے باوجود بھی مشہوری کی منزل طے پانے سے رہ جاتے ہوئے کف افسوس مل جاتے ہیں ۔خواہش نفس یا اَنا نے کتنے پاکیزہ نفوس کو ثریا سے زمین پر دے مارا ۔خواہش نے بعض اوقات انسانی آبادی کو مایوسی کے کفر سے نکال کر وادی یقین کی جانب سفر کرانا سکھایا، جس کی ہزارہا مثالیں آج بھی دنیا کی تاریخ میں زندہ و جاوید ہیں۔ اس سفر کے ایک مرحلے نے کاہلوں کو محنت کرنا سکھایا،بربادیوں کو آباد رہنے کا ہنر عطا کیا ،مایوسیوں کو خوشیوں میں تبدیل کر وایا ، کمزوروں کو باز آور بناڈالا ،اور اس طرح سے ویرانوں میں روشنیاں جگمگا اٹھیں یہاں تک کہ زندگی نے دنیا پر فتح پایی بقول شاعر ؎
دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رخ موڈ دیا ہو
دنیا کی تلخ حقیقت میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر نفس ہزاروں خواہشیں نکل جانے کے باوجود بھی تشکر کےبجائے وادی حیف کے دروازے پر قد دراز کئے رورہا ہے، آخر وجہ کیا ہے ؟ کون سی خواہش نکل جانی تھی اور کون سی خواہش رہ جانی تھی، جن کو نہیں نکل جانا تھا۔ آدمی کہتا ہے نکل جانا تھا اور جن کو رہ جانا تھا بندہ کہتا ہے ان کو نکل جانا تھا ،لیکن قدرت کا قانون برابر انصاف پر چلتاہے، صرف بندہ اپنی دھن میں بے خبری کے عالم میں نہ جانے کیا کیا منہ سے نکالتا جاتا ہے اور خواہشیں اپنے مدار پر خاموشی سے سفر جاری و ساری رکھتی ہے ۔
خواہشات کے متوالے سینہ سپر ہرکر میدان کارزار میں وارد ہو جاتے ہیں اور ہر دم رجز کے پیرائے میں آڑے آنے والی مشکلوں کو للکارتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں، چند نصف راستے سے رخصتی کا ارادہ کر بیٹھتے ہیں اور کچھ منزل مقصود کے قریب ہوتے ہوئے بھی اپنی جان جان آفرینی کے نام کرنے کے پابند رہتے ہیں۔ اس طرح ایسے اشخاص محض دو گز زمین ہی نصیب میں پاتے ہیں، دو گز کفن کے ساتھ اور ازلی حقیقت بھی یہی ہے۔ اس طرح سے خواہشوں کی آگ قبر کی مٹی سے سرد ہو جاتی ہے مگر دوستو !حق تو یہ ہے کہ حق جاننے کے باوجود بھی ہم انسان حق سے غافل رہنا ہی پسند فرماتے ہیں۔ عین خواہش گری لاکھ رابطے قایم کراتی ہے، لاکھ راستے مسدود ہونے کو آتے ہیں ،لاکھ راستے مفقود ہو جاتے ہیں نیز لاکھ عزیز جان کے دشمن بھی ثابت ہوسکتے ہیں ،جن سے بے چارہ عزیز شکوہ بھی نہیں کرپاتا ہے ۔
دنیا کی کارریگری کا کارروبار بھی عجیب ہے، جہاں خواہشوں کا کارِ انبار آدمی کو جینے پر مجبور کرتا ہے۔ کچھ نفوس محض مجبوری کے آئینے میں خواہشات کا قلع قمع کرتے ہیں مگر بہت سارے افراد تشکر کے عالم میں خواہشوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔یہ بات بھی حق پر مبنی ہے کہ کچھ خواہشیں کبھی اچھے بھلے آدمی کو دیوانہ بنا ڈالتی ہے اور کبھی دیوانے کو بھلا انسان بنا لیتی ہیں۔ عام آدمی زندگی کے دھارے کو کاٹنے کی خاطر اپنی جانب سے خواہشات کی ایک فہرست قایم کرجاتا، جن کی تکمیل کے لیے انھیں مختلف موجوں کے حصار سے گزرنا پڑتا ہے، ان حصار میں دنیا داری، جبریت ،معاشرے کا اپنا برتاو،سرکاری یا حکومت کی حکمت عملی ،انسان کی اپنی ذاتی مختاری اور محتاجی شامل رہتے ہیں ۔
انفرادی تسکین اور واقعیت اسی میں پنہاں ہے کہ لوگ اپنے اپنے مقدور کے مطابق ہی خواہشات کا جال پھیلائے، لیکن نہ جانے کیوں حضرت انسان اپنی ذات کے حصار کو توڑ کر خواہشات کے سمندر میں غوط زن ہونا چاہتا ہے، جہاں سے کبھی لوٹنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ دنیا کی بیشتر آبادی خواہشات کو لیکر اس حد تک متفکر رہتے ہیں کہ راتوں کو اختر شماری کرتے جاتے ہیں گویا آختر شماری کرنا اس بات کا عین ثبوت ہے کہ بندہ خواہش کی قید میں پریشانی کو گلے سے لگا بیٹھا ہے۔
ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا
ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا ( طارق قمر )
[email protected]