ہر سُویہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے؟ کڑواسچ

مشتاقؔ فریدی۔ ڈوڈہ

یہاں ہر عبادت ہر کام اعتدال کے تابع ہے۔ اعتدال سے ہٹ کر جو بھی عبادت یا کام کیا جائے، تو اُس کا خلوص اور للیت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طبیہ مکمل طور اس اعتدال کی آئینہ دار ہے۔ نماز تہجد کو ہی لیجئے۔ نوافل نمازوں میں فرض نمازوں سے قریب ترین یہی نماز تہجد ہے۔ تہجد کے ذریعے ہی رسول اکرمؐ کو مقام محمود کی بشارت دی گئی ہے۔ آداب تہجد کے بارے میں حدیث مبارک ہے کہ بلند آواز سے تلاوت کرنے والا اعلانیہ صدقہ کرنے والا ہے اور آہستہ تلاوت کرنے والا پوشیدہ طور صدقہ کرنے والے کی مانند ہے۔پوشیدہ طور صدقہ کرنا کتنا افضل ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو کس قدر پسند ہے۔ اس میں کس کو کلام ہوسکتا ہے؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کے بارے میں کتب سیر میں لکھا ہے کہ جب لوگ سو جاتے تھے تو آپؓ اور ادووظائف و تہجد کےلئے کھڑے ہو جاتے تھے، صبح تک ان کی آواز شہد کی مکھی کی طرح سنی جاتی تھی۔ بہت پست آواز سےقرآن پاک تلاوت فرماتے تھے تاکہ سونے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
قُرآنِ پاک میں کرخت اور بلند آواز کو اصوات لحمیر سے تشبہہ دی گئی ہے۔ علم الکلام کے ماہرین نے کلام میں سوز گداز، شرینی، حلاوت کو جہاں ضروری قرار دیا ہے وہیں ایسا انداز بیان اختیار کرنے کی ترغیب بھی دی ہے کہ متکلم کو ایسا اندازِ بیان اختیار کرنا چاہئے جو سامعین کو بارِ سماعت محسوس نہ ہو۔لیکن افسوس کہ اب غیر مسلموں کی طرح مسلمان بھی مساجد اور خانقاہوں میں لوڈ اسپیکر لگا کر ماحول میں موجود ہنگامہ آرائی میں اضافہ کرتے ہیں۔ خصوصاً مخصوص تقریبات مثلاً شب قدر، شب معراج،شب برات، وغیرہ کے موقعوں پر تو آسمان کو سر پا اٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ ان مقدس و با برکت راتوں میں افضل ترین عبادت یہ ہے کہ انسان خلوت نشین ہوکر ربّ ِحضور حمد و ثنا تسبیح و تقدیس، توبہ واستقفار اور طلب خیر و برکت کرے۔ اجتماعی طور مساجد و خانقاہوں میں شب بیداری کی جائے تو یہاں بھی اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ لوڈ اسپیکر لگا کر اسکی آواز کو اتنہائی عروج کے نقطہ پر رکھ کر ائمہ حضرات، مبلغین و واعظین حضرات اس انداز سے چیخ چیخ کر ذکر واز کا راور تبلیغ دین کرتے ہیں کہ پوری بستی گونج اٹھتی ہے۔ غیرمسلم گھروں میں محوعبادت، اور بیمار لوگ ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ اس ہنگامہ آرائی سے بات وہاں پہنچ جاتی ہے کہ کبیر نے کہا تھا کہ کیا خدا بہرہ ہے کہ پجاری ناقوس اور موذّن اذان سے اُسے جگاتے ہیں (مفہوم)
جمعتہ المبارک کے موقعہ پر تو ہمارے عزت مآب واعظین، خطیب اور مبلغ حضرات لوڈ اسپیکر کا بھر پور استفاداہ کرتے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عاقبت سنوارنے والی باتیں سننے کی آرز ومندا اور طلب حق و صداقت لوگ مسجدوں میں ہی تشریف فرما ہوتے ہیں تو لوڈ اسپیکر پر آواز بلند بیان کرنا کیا افادیت رکھتا ہے اور امام بھی ان کےلئے ہی قرأت کرتا ہے جو مسجد میں شریک نماز ہوتے ہیں۔ قرأت کو ہوا کے دوش پر فضاوں میں بکھیرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ اکثر ایک مسجد کے وعظ سے لوگوں کی نمازوں میں خلل واقع ہوتا ہے۔ جمعۃ المبارک پر تو روحِ اسلام اور عبادت سے نابلد کچھ واعظین ائمہ حضرات مائک پر چلّا چلّا کر دعوت اسلام کی پیاس بُجھاتے ہیں۔ ہر مسجد شریف میں یہی ہنگامہ برپا ہوتا ہے اور واعظین کی آوازیں گُڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ نہ ایک واعظ کی بات سُنی جاتی ہے نہ دوسرے کی۔ لگتا یہی ہے کہ یہ واعظین حضرات اپنے علمی تبحر کی نمائش پر بہ ضد ہوتے ہیں اورصو تیاتی آلودگی کو پھیلانے میں اپنا علمی کمال سمجھتے ہیں، دعا ہے کہ ایسے واعظین کو اللہ تعالیٰ فہم دین عطا فرمائے ۔
گزشتہ ماہِ صیام میں شب قدر کے موقع پر ہماری محلہ مسجد میں ایک مولوی زادہ کو بلایا گیا ۔ امام مسجد کے بعد جب اس نے مائیک پر قبضہ کر لیا تو اسطرح لا الا ۔۔۔ کا دروبہ آواز بلند کرنے لگا کہ گویا واقعی ( نعوذ باللہ ) خداوند سمیع و بصیراب چیخنے چلانے سے ہی سنتا ہے۔ مسلمان تو جذبہ سعادت سے سرشار ہو کر مجبوراًیہ ذکر بالجہرسنتے رہے مگر ان غیر مسلموں کا کیا قصور تھا جن کو ہم نے رات بھر جاگنے پر مجبور کیا۔ اس بیمار کو ہم کیسے راحت پہنچاتے رہے جو راحت کی نیند سونا چاہتا تھا۔ اس خلوت نشین عبادت گزار کے سوز و گداز، یکسوئی اور انہماک کو چھین کر ہم نے کیا پایا؟ ہمارے ائمہ حضرات اور واعظین کرام کو مائیک سے اس قدر دل لگی ہوگئی ہے کہ کھانسنا ہوتو مائیک پر کھانستے بھی ہیں۔ ہم پتھر کے زمانے میں نہیں بستے ہیں بلکہ آج کا دور سائنسی دور ہے ۔ ہر گھر کے ہر فرد و بشر کے ہاتھ موبائیل فون ہے ۔سحری کے وقت جاگنے کے لئے فون کا استعمال آسانی سے کیا جاتا ہے ۔ مساجد سے سحری کا اعلان کرنا انتہائی غیر موزوں ہے۔ ذرا سوچئے، جب مساجد سے سحری کا اعلان کیا جاتا ہے تو غیر مسلموں کی نیند خراب کر کے کیا خراب حال کرتے ہیں، یا محلوں میں گشت کر کے ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔ دین کی کیا خدمت کرتے ہیں۔ مذہبی اداروں کی اس ہنگامہ آرائی پر ہندوستان میں کچھ فلاحی تنظیموں نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدلیہ نے حکم صادر فرمایا کہ مندروں اور گرجا گروں میں لوڈ اسپیکر کی آواز کو مدھم کیا جائے۔ ابھی حال ہی میں Live and let live society India نے اپنے پریس ریلیز کے ذریعے مذہبی اداروں سے در مندانہ اپیل کی ہے کہ Noise Pollution کو کم کرنے میں مدد کی جائے تاکہ ماحول صوتیاتی آلودگی سے محفوظ رہ سکے۔
ڈوڈہ کے ایک غیر مسلم ڈپٹی کمشنر صاحب ،اس ہنگامہ آرائی سے تنگ آکر مندر کے پجاری کو کہلاوا بھیجنا پڑا کہ شام و صبح کے وقت مندر سے نشر کئے جانے والے بھجن، کیرتن کی آواز کو مدہم رکھا جائے۔ اس پر مندر کا پجاری برہم ہوا اور اخبار کے ذریعہ اس خبر کو مذہبی مداخلت کو عنوان دیکر اُچھالا۔ اگر یہ ڈپٹی کمشنر صاحب مسلمان ہوتا تو اس وقت مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میں پابند سلاسل ہوتا۔ ائمہ مساجد، واعظین کرام اور خطیب حضرات سے مودبانہ گذارش ہے کہ اسلام کی روح عبادت کو ملحوظ خاطر رکھکر اس صوتیاتی آلودگی پر توجّہ فرمائیں۔
(رابطہ۔9596959045)