کیا انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے؟ فہم و فراست

عمر فاروق

کچھ جُملے بظاہر بڑے ہی دلکش اور دلفریب ہوتے ہیں۔یہ جُملے اتنے مسحور کُن ہوتے ہیں کہ اچھے اچھے لوگ بھی ان کے دامِ تسحیر میں پھنس جاتے ہیں اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر ہی ان کی تشہیر کیے دیتے ہیں۔ان ہی جملوں میں’’انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے‘‘بھی شامل ہے۔آخر یہ انسانیت کا مذہب ہے کیا؟اسکی ابتدا کب ہوئی؟اس کا مُوجِد کون ہے؟یہ جملہ کس سہارے کھڑا ہے؟کیا اس بظاہر پیارے سے جملے کو کہنے میں کوئی شرعی قباحت ہے؟کیا عوام اور خواص اس جملے کا مفہوم ایک جیسا سمجھتے ہیں یا ان کے نزدیک اس کی الگ الگ تعبیریں ہیں؟آئیے ان سوالات کو حل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ’’دین ِ انسانیت‘‘(Religion of humanity) مستقلًا ایک الگ مذہب ہے،جس کی بنیاد علومِ سماجیات(sociology) کے بانی مانے جانے والے اگست کومتے (August comte) نے ڈالی ہے۔اگست کومتے( م۔1857) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ایک مُلحد تھے۔بعد میں اُنہیں لگا کہ آج دنیا کو ایک نئے مذہب کی ضرورت ہے،جس کے اصول و ضوابط کی رہنمائی میں لوگ اپنی زندگی احسن طریقے سے گزار سکیں۔اس کے لیے اُنہوں نے اس نئے’’دین ِ انسانیت‘‘کی بنیاد ڈالی۔اس مذہب کے بنیادی عقائد میں یہ شامل ہے کہ’’انسانیت ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔اسی کی وہ عبادت کرتے ہیں۔برازیل اور فرانس میں ان کی باقائدہ عبادت گاہیں موجود ہیں۔اس مذہب کے اصولوں کے مطابق ایک انسان کو دوسروں کیلئے جینا ہوگا اور دوسرے لوگوں کی فکر کرنے والا بننا پڑے گا۔کومتے نے اپنی زندگی میں ہی خود کو اس مذہب کا سب سے بڑا پادری کہہ دیا تھا۔کومتے نے باضابطہ ایک کلینڈر(calander) بھی تشکیل دیا،جس میں سال کی ہر تاریخ کو دنیا کے کسی بڑے سائنسدان،فلسفی یا شاعر وغیرہ کی طرف منسوب کیا گیا تھا۔اس کے ان افکار کا اثر یہ ہوا کہ امریکا اور یورپ میں انسانیت کے نام پہ مختلف تنظیمیں اور انجمنیں وجود میں آئیں۔کومتے کے متعلق یہ بھی آتا ہے کہ وہ ایک فرانسیسی قلمکار خاتون Clotilde de Vaux کے افکار سے بھی متاثر تھے اور ان کی وفات کے بعد ہی اس نے دین ِ انسانیت کی بنیاد ڈالی۔
بحیثیت ِ مسلمان اب ہمارا اس کے ساتھ کیا اختلاف ہے؟آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جو لوگ’’اِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّٰهِ الاِسلَامُ‘‘یعنی دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے۔(آلِ عمران:١٩)اور وَمَن يَّبتَغِ غَيرَ الاِسلَامِ دِينًا فَلَن يُّقبَلَ مِنهُ‌ ۚ وَهُوَ فِى الاٰخِرَةِ مِنَ الخٰسِرِينَ۔
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘( آل عمران:۸۵)
جیسی آیات پہ ایمان رکھتے ہوں،انکے لئے پہلے تو جائز ہی نہیں ہے کہ وہ اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کریں یا اس کی دانستہ یا نادانستہ طور پر وکالت اور ترویج کریں۔دوم یہ کہ اس طرح کے جملے اُنکی زبان سے سننا اُنکی علمی کوتاہ نظری کا بیّن ثبوت ہے۔جس کا ہم آگے چل کر مختصراً جائزہ لیں گے۔یہ بات ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھنے کی ہے کہ جب بھی عام لوگ انسانیت کی بات کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے،اس سے اُنکی مراد مختلف قسم کے اخلاق ہوتے ہیں۔یعنی انکے نزدیک انسانیت نام ہے اخلاقیات اور اعلیٰ انسانی اقدار کا۔جیسے کوئی انسان دوسروں کی مدد کرے،کسی کی جان بچائے،کسی بھوکے کو کھانا کھلائے،سچ بات کہے ،سچائی کا ساتھ دے،امانت کی حفاظت کرے،بلا لحاظِ مذہب و مسلک دوسروں کو فائدہ پہنچائے وغیرہ۔مگر جو لوگ انسانیت کے اس مذہب کو دانستہ طور پر قبول کرتے ہیں گویا وہ اسلام کو چھوڑ کر ایک نئے دین کے پیرو بن جاتے ہیں۔اب وہ خدائے ذوالجلال کے بجائے انسانیت کے اس خود ساختہ معبود کی عبادت کرتے ہیں۔
اگر دین ِ انسانیت نام ہے اخلاقیات کا تو میں یہ بات بلا خوف و تردید کہتا ہوں کہ اسلام کے نظامِ اخلاق کا نہ کوئی ثانی تھا،نہ ہے اور نہ ہوگا۔اور یہ بات میں محض جذبات کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ اس پہ مجھے بفضل ِتعالىٰ شرحِ صدر حاصل ہے۔اگر ماں باپ کی خدمت کا نام انسانیت ہے تو مجھے بتائیے کہ اسلام کے علاوہ دنیا کے کس مذہب میں ماں باپ کے سامنے اُف تک کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے؟(سورۃ بنی اسرائیل:۲۳) یا جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے کہا گیا ہے (کنزالعمال:۴۵۴۵٦) یا باپ کو بابِ جنّت( ترمذی:۱۸۹۹) اور خدا کی خوشنودی کا وسیلہ کہا گیا ہے۔اگر انسانیت نام ہے احترامِ آدمیت یا انسانی جان کی حُرمت کا تو مجھے بتائیے کہ اسلام کے علاوہ کس مذہب میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے؟(سورۃ المائدہ:۳۲)اگر انسانیت نام ہے خواتین کو عزّت دینے کا تو اسلام کے علاوہ کہاں بیٹیوں کی اچھی پرورش اور تربیت کرنے والے باپ کو جنت کا مژدہ سنایا گیا ہے؟( مسند احمد:۸۰٧١) یا بیوی کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کو بہترین انسان کہا گیا ہے(سنن ابن ماجہ:١٩٧٧) ہمارے پیارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اپنی دودھ شریک بہن شیماء کیلئے اپنی مبارک چادر بھی بچھائی ہے۔
یہ انسانیت کے دعویدار آج بھی گورے اور کالے میں فرق کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ہمارے یہاں کالے رنگ والے بلالؓ کی اذان پہ نبی اکرمؐ سمیت سب امیر و غریب اور صغیر و کبیر صحابہؓ مسجد میں ایسے صف باندھ کر جمع ہوتے تھے کہ نہ کوئی بندہ رہتا اور نہ ہی کوئی بندہ نواز۔اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق وہی لوگ ہمیں انسایت کا درس دیتے ہیں جن پہ یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ’’بُوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے‘‘۔
اسی طرح اگر دین ِ انسانیت کے ماننے والے اسے انسانی اقدار سے کسی بڑے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اس مذہب کے دعویداروں سے پوچھے تو سہی کہ آپ تو دنیا کو سنوارنے چل پڑے ہیں،آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کے پاس کون سا عائلی،معاشی، معاشرتی، تمدنی، تعلیمی،دفاعی،زرعی اور قانونی نظام موجود ہے،جس کے رنگ میں آپ اس دنیا کو رنگنا چاہتے ہیں؟یا آپ کا خاندانی نظام بھی آخر میں اولڈ ایج ہوم پر منتج ہوجاتا ہے؟یا آپ بھی ایسے تعلیمی نظام ہی کو رائج کرنا چاہتے ہیں جس میں مسلسل بیس سالہ دماغی تربیت کے بعد بھی بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ صحیح اور غلط کے مابین خطِ تنسیخ کھینچ سکے؟یا آپ دنیا کو اُسی سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ظالمانہ نظام میں دھکیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں،جو اقبالؒ کے الفاظ میں’’پیتے ہیں لہو اور دیتے ہیں تعلیمِ مساوات‘‘جیسے ظالمانہ اور منافقانہ خصائل والے لوگ پیدا کردیتے ہیں؟یا آپ کوئی ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ڈارون کے سائنسی نظریۂ بقا کو عملی زندگی میں عملا کر ہر کمزور کا خون چوسا جائے اور اس کی ترقی کے سارے راستے مسدود کردیے جائیں؟ تو ہمارے لیے آپ کے اس خود تراشیدہ تازہ خُدائے انسانیت کے بُت میں کوئی کشش نہیں ہے۔آخر پہ میں طوالت کے خوف سے سورہ مدثر سے چند آیات پیش کرنے پر ہی اکتفا کروں گا تاکہ انسانیت کے پُجاریوں کے تمام قرضے بیک وقت ادا ہوسکیں۔اس سورہ کی آیات ۴۲،۴۳،۴۴،۴۵ میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ مَا سَلَكَكُم فِى سَقَرَکہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟وہ درجواب تین باتیں کہیں گے کہ:1) ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔2) مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔3) اور اہلِ باطل کے ساتھ مل کر حق کا انکار کردیتے تھے۔ یعنی نہ حقوق اللہ کو پورا کرتے،نہ حقوق العباد کو اور نہ ہی اپنی ذات کے حقوق کا لحاظ کرتے تھے۔
ان تینوں آیات پہ غور کریں تو یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ اسلام ہر طرح کے حقوق پورا کرنے کیلئے ایک انسان کو اُبھارتا ہے۔اور اگر کوئی ان سارے حقوق کو بجا نہیں لاتا تو اسے جہنم کا ایندھن بننے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔خالق کا حق یہ ہے کہ اسکے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے اپنی جبینِ نیاز نہ جھکائی جائے اور خالق ِ کائنات کا تعارف کرانے سے بڑھ کر انسانیت کی کوئی خدمت نہیں ہے۔بندوں کا حق یہ ہے کہ تنگدستی میں اُن کی مدد کی جائے اور انہیں ان کی مشکلات سے باہر نکالنے کی کوشس کی جائے اور اپنی ذات کا حق یہ ہے کہ انکارِ حق یا کتمانِ حق کی پاداش میں خود کو عذابِ الٰہی کا مستحق نہ ٹھہرایا جائے۔یہ تمام حقوق آخر کار حقوق اللہ میں ہی ضَم ہوجاتے ہیں۔اس دین ِ انسانیت کا یہ اصول کہ صرف دوسروں کے لیے جیا جائے ایک ناقابلِ عمل نظریہ ہے۔ظاہر ہے کہ جب انسان خود کی ذات کیلئے کسی کام میں کوئی فائدہ محسوس نہ کرپائے تو وہ زیادہ دیر تک اس نظریے کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار نہیں رکھ سکتا۔یہ انسانیت کے نام پر دھوکہ دہی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس طرح کے پُرفریب نعروں کے جھانسے میں نہ آیا کریں اور تحقیق کے بغیر ہی ان بظاہر روشن مگر بباطن چنگیز سے تاریک تر جُملوں کا استعمال نہ کیا کریں۔آخر پہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ:
اللھم ارناالحق حقاوارزقنااتباعه،وارناالباطل باطلاوارزقنااجتنابه
’’اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اسکو قبول کرنے کی توفیق عطا کر اور باطل کو باطل دکھا اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما‘‘ آمین یا رب العٰلمین۔
[email protected]