کیااقوام متحدہ بے بس تنظیم ہے؟ میری بات

سید مصطفیٰ احمد ،سرینگر
دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل اس مقصد سے کئی گئی تھی تاکہ دنیا پھر سے جنگ کی ہولناکیوں کا شکار نہ ہوں۔ پہلی دو عالمی جنگوں نے دنیا کو تباہی کے ایسے دلدل میں پھینک دیا تھا، جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ پھر عقل والوں نے جنگ کے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسی تنظیم کی تشکیل دینا ناگزیر سمجھا جو پوری دنیا کو جنگ کا میدان بننے سے بچائے۔ بالآخر کافی سوچ بچار کے بعداقوام ِ متحدہ نامی تنظیم کا وجود عمل لایا گیا ۔مگر بغور مطالبہ کیا جائے تو اقوام متحدہ وہ اقدام اٹھانے یاوہ کردار ادا کرنے میںسنجیدہ ثابت ہوسکی،جن مقاصد کے لئے اس کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔اور اس طرح یہ محض نام کی تنظیم رہ گئی ہے۔طائرانہ نظر ڈالی جائے تواس تنظیم کو مغربی ممالک اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں اور جس طرف چاہتے ہیں، اس کو لے جاتے ہیں۔ سرد جنگ، اسرائیل کا قیام اور اُس کی جارحیت،فلسطین کا مسئلہ،عراق پر تھونپی گئی جنگ ،ایران عرب تنازعہ،افغانستان، یمن، شام کی تباہی یا اب روس اور یوکرین کی جنگ کو سلجھانے میں اس تنظیم نے کون سا نمایاں رول ادا کیا ہے؟ گویا اس تنظیم کو قیام میں لانے والی بڑی طاقتوں نے اپنےحقیر مفادات کی خاطر اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کا ہی گلا گھونٹ دیا ہے۔ مختلف ممالک میں انسانی کا بڑے پیمانے پر قتل عام اورشہروں کی ویرانیاں،لوگوں کی ہجرت ،غربت اور بھکمری ا س عالمی تنظیم کو کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی ہے؟دنیا کے کئی ممالک میں تواتر کے ساتھ یہی صورت حال چلی آرہی ہے،مزید کتنے لاکھوں کروڑوں کوگوں کو بُری طرح متاثر ہونا ہے،کتنوں کی جان جانی ہےاور کتنے شہر بُرباد ہوکر کھنڈرات میں بدل جانے ہیں،اس کے متعلق قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا ،البتہ یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اصولوں کی باتیں اب پاگلوں کا شیوہ بن کر رہ گئی ہیںاور اقوام متحدہ کی حالت بھی کچھ ایسے ہی ہوگئی ہے۔

1945 سے لے کر آج تک دنیا کے اربوں لوگ اس تنظیم کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں جبکہ آج بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ تنظیم امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اسرائیل، وغیرہ ممالک کے تلوے چاٹنے میں سب سے آگے ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تنظیم دنیا کے بااثر ممالک کے ساتھ مل کر مصیبتیں برپا کرتی ہیں اور پھر مگرمچھ کے آنسوؤں بہا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ہم انسانیت کی بہبودی کے لئے کام کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس قسم کی منافقت پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو ہی لیجیے۔ کونسا رول اس تنظیم نے ادا کیا؟ صرف کاغذی گھوڑوں پر سواری کرتی رہی اور اس جنگ میںہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں اور بدستو اُتر رہے ہیں،شرہ کھنڈرات بن رہے ہیں۔ کھربوں کا نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ جبری مہاجرت، بیماریوں میں اضافہ، کھانے کی کمی، تاریک مستقبل، وغیرہ ایسا کیا نہیں ہے جو اس جنگ نے دنیا کو نہیںدکھایا ہے۔ نیٹو کی سازشوں اور یوکرینی صدر کے پاگل پن نے ہی اس صورت حال کو جنم دیا ہے۔چنانچہ دنیا میں ایسے بہت سارے مسائل ہیں ،جن پر یہ پیسے خرچ کیا جاسکتا ہے جو اس جنگ میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ یمن اور افغانستان کے لوگ ایک روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔ مگر دنیا کے یہ ٹھیکیدار غرباء سے چھینے جارہے نوالے اپنےکتوں کو کھلاتے ہیں یا پھر سمندر کے حوالے کردیتے ہیں۔ اصل میں نام نہاداعلیٰ ہونے کا بھوت یہ سب کچھ کرواتا رہتا ہے، اپنے آپ کو انسان اور دوسروں کو جانور اور حقیر سمجھنے کے نتائج اسی شکل میں نکل کر سامنے آتے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی اس تنظیم کو دکھائی نہیں دیتی ہے، چھ لاکھ لوگ پہلے سے ہی مرچکے ہیں، مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ غرباء کا شمار ہی نہیں۔ مگر اندھی تنظیم کو یہ نہیں دِکھتا ہے،اُس کو تو بس امریکہ اور اس کے حمایتیوں کی فکرکر دامن گیر ہے۔

اصل میں اس دنیا میں غرباء کے حال پر صرف اللہ ترس کھاتا ہے۔ اس تنظیم کی ذیلی تنظیمیں بہبودی اور ترقی کی باتیں کرتے کرتے نہیں تھکتے ہیں مگر جب بات حق کی آتی ہے تب یہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کھربوں روپے ان جنگوں پر صرف کئے، جو لاحاصل ہے۔ ویتنام، افغانستان، عراق، وغیرہ کچھ مثالیں ہیں جہاں اقوام متحدہ کوئی بھی موثر رول ادا کرنے سے قاصر رہی۔ ان جنگوں پر جتنا سرمایہ خرچہ ہوا، اُس کے چوتھائی حصے سے ہی دنیا بھر سے غربت اور بیماریوں کا قلع قمع ہوسکتا تھا جب مادیت نے لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہے اور مذہبی جنون نے لوگوں کو خدا بنا دیا ہے، تو ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگوں کا خاتمہ ہو، ایسی امید لگائے بیٹھنا، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کی مترادف ہے۔

کتنا اچھا ہوتا کہ اقوام متحدہ اپنے وعدوں پر کھرا اترے کی کوشش کرتا ۔ دنیا مصیبتوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ غربت، بھوک،بےروزگاری، دہشت گردی، وغیرہ ایسےمسائل ہیں، جن کا تدارک وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے اور دنیا کے آبادی مزید تباہی تاب نہیں لاسکتی ہے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]