کشمیری میوہ صنعت کو تباہی سے بچائیں !

گزشتہ کچھ دنوں سے میوہ ٹرکوں کی قومی شاہراہ پردرماندگی کے حوالے سے ایک عجیب صورتحال بنی ہوئی ہے۔جہاں حکام کا کہنا ہے کہ میوہ ٹرکوں کو ترجیحی بنیادوںپر جموںکی جانب روانہ کیاجارہا ہے وہیں میوہ صنعت سے وابستہ لوگوںکا کہناہے کہ جان بوجھ کر میوہ بردار گاڑیوں کو شاہراہ پر کئی کئی دن تک درماندہ رکھاجارہا ہے ۔حقیقت کیا ہے ،اس بحث میں الجھے بغیر یہ وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اس سیزن میں روزانہ سینکڑوں ٹرک کشمیر سے میوہ لیکر ملک کی مختلف منڈیوں کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور اگر یہ میوہ بروقت میوہ منڈیوں تک نہ پہنچ جائے تو یہ گرمی کی وجہ سے گاڑیوںمیں ہی سڑکاجاتا ہے اور منڈی پہنچ کر پھر اس میوہ کو اونے پونے دام فروخت کرنا پڑتا ہے ۔اس صورتحال میں لازمی ہے کہ سرکار میوہ بردار گاڑیوں کو فوری طور جموں تک پہنچانے کا بندو بست کرے اور سرکار کوششیں بھی کررہی ہے ۔نہ صرف اب تک دو دفعہ چیف سیکریٹری نے اس سلسلے میںاعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت کی جبکہ سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے از خود رام بن کا دورہ کرکے زمینی سطح پر تعینات سرکاری مشینری تک یہ ہدایات غیر مبہم الفاظ میں پہنچائیں کہ میوہ گاڑیوںکو ترجیحی بنیادوںپر ادھم پور کراس کرایا جائے ۔ اس کیلئے جہاں شاہراہ کی مرمت کیلئے بھی منصوبہ بندی کی گئی اور رات کو شاہراہ چار گھنٹے مرمت کی غرض سے بند رکھنے کا فیصلہ لیاگیا تاکہ دن میں شاہراہ پر بلاخلل ٹریفک چل سکے وہیںرام بن ضلع میں شاہراہ پر خانہ بدوش قبائل کی اپنے مال سمیت پیدل نقل و حمل پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور ان کیلئے ٹنل سے قبل ہی ٹرانسپورٹ کا انتظام کیاگیا تاکہ وہاں سے انہیں ٹرکوں میںروانہ کرکے ادھم پور یا اس سے آگے تک پہنچایاجاسکے ۔اس اقدام کے نتیجہ میں حکام کو امید ہے کہ شاہراہ پر غیر ضروری جام سے بچا جاسکتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ اقدامات سرکار صرف اس لئے کررہی ہے تاکہ ہمارا میوہ بروقت شاہراہ کا پر خطر حصہ عبور کرکے ادھم پور تک پہنچ سکے جہاں سے پھر آگے بڑھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے تاہم ان سرکاری اقدامات کے باوجود بار بار قاضی گنڈ میں فروٹ گروور احتجاج کررہے ہیں کہ میوہ ٹرکوں کو ایک ایک ہفتہ تک شاہراہ پر درماندہ رکھا جاتا ہے اور سرکاری احکامات کی زمینی سطح پر عمل آوری نہیںہورہی ہے ۔اُنکا یہ بھی الزام ہے کہ جان بوجھ کر میوہ ٹرکوںکو شاہراہ پر سائیڈ میں لگادیا جاتا ہے تاکہ میوہ ٹرکوںمیں سڑ جائے ۔یہ ایک انتہائی سنگین الزام ہے ۔ایک طرف حکومت پوری نیک نیتی کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ میوہ گاڑیاں بلاخلل چل سکیں اور انہیں فوری طور ادھم پور تک پہنچایا جائے ،دوسری جانب اگر یہ صورتحال ہے کہ میوہ ٹریفک اس کے باوجود بھی روکا جاتا ہے اور میوہ گاڑیوںکی درماندگی ہفتہ بھر تک رہتی ہے تو یہ یقینی طور پر ایک سنگین صورتحال ہے جس کا تدارک ناگزیر ہے ۔حکام اس بات سے بالکل آگاہ ہونگے کہ اس سال میوہ فصل بہت اچھی ہوئی تھی اورپیداوار امیدوں سے کہیں زیادہ تھی تاہم جس طرح سے گزشتہ دو ایک ہفتوں سے ملک و بیرون ملک منڈیوںسے اطلاعات آرہی ہیں کہ کشمیری میوہ کے خریدا ر ہی نہیں ہیں اور انتہائی سستے داموں میوہ منڈیوں میں فروخت ہورہاہے تو اُس نے میوہ صنعت سے وابستہ لوگوں کی کمرتوڑ کررکھ دی ہے۔اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ جس بھائو سے اس وقت ملک کی منڈیوں میں کشمیری میوہ فروخت ہورہا ہے ،اگر اُسی بھائو سے میوہ فروختگی کا سلسلہ جاری رہے تو میوہ اگانے والوںکیلئے اخراجات کی بھی بھرپائی کرنا مشکل ہوگی ۔یہ ایسی صورتحال ہے جو باعث تشویش ہے اور اس کے دور درس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ویسے بھی آج کل اب یہ بات زبان زد عام ہے کہ کشمیرکی میوہ صنعت ڈوب چکی ہے کیونکہ اب گزشتہ کئی برسوںسے میوہ کے ریٹ صحیح نہیں مل رہے ہیں اور میوہ اگانے والے خود کشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کیونکہ وہ قرضوں تلے ڈوب چکے ہیں۔جب صورتحال اتنی پریشان کن ہو اورمیوہ کی حالت یہ ہو تو ایسے میں اگر ہمارا میوہ مزید کئی کئی غیر ضروری طور راستے میں رہ جائے تو نرخوں کا مزید نیچے آجانا طے ہے کیونکہ جب تاخیر سے میوہ منڈیوں تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی حالت غیر ہوچکی ہوتی ہے اور خستہ ہوچکا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بھائو کا گرجانا فطری امر ہے ۔اس صورتحال میں سرکار کے کاندھوںپر دوہری اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیری میوہ کی بروقت منڈیوںتک رسائی یقینی بنائے تاکہ خسارے کا حجم کم سے کم کیاجاسکے ۔جتنا جلدی میوہ منڈیوں تک پہنچ جائے گا ،اُتناہی اس کا معیار اچھے رہے گا اور اگر معیار اچھا رہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ بھائو بھی بہتر ہوجائے گااور ایک دفعہ جب بھائو بہتر رہے گا تو ہم خسارے سے منافع کی جانب سفر کرسکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سرکار واقعی میوہ صنعت سے وابستہ لوگوںکی امیدوںپر کھرا اتر پائے گی یا پھر حسب سابق صر ف مصنوعی کلابازیوں میں ہی وقت صرف کرکے میوہ صنعت سے جڑے لوگوںکو شاہراہ کے ابتر حالات اور منڈیوں میں بیٹھے بڑے بڑے دلالوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑدیاجائے گاتاہم امید یہی جاسکتی ہے کہ فلاحی ریاست کے حکمران عوامی فلاح کو ہی ترجیح دینگے اور کشمیری میوہ صنعت کو مزید تبا ہ ہونے سے بچانے کے جتن کریںگے۔