بھلا اس بیٹے کی کیفیت کو کوئی کیا بیان کرے جو ایک ہفتے سے اپنی ماں کی لاش کو کندھے پر لئے اُسے اپنے آبائی علاقہ پہنچانے کے جتن کر رہا ہو… یا اس کنبے کے لواحقین کاحال کن لفظوں میں بیان ہو،جن کو آٹھ دن بعد کسی انجان کا پیغام یہ بتاجاتا ہے کہ کنبہ کے آٹھ افراد کی لاشیں پچھلے ایک ہفتے سے خونی نالے میں پڑی ہیں … یا پھر بیرون ریاست کے حوالدار سکھ دیو کے لواحقین کو کوئی یہ کیسے بتائے کہ ان کا لخت جگر تین سو فٹ گہری کھائی میں گر کر دم توڑ گیا ؟ یہ خبریں سننے میں جتنی دردناک محسوس ہوتی ہیں، حقیقی معنوں میں ان کو جھیلنا اس سے کئی گنا دردناک ہے ۔ ایسے واقعات کے بارے میں سن کر دل خون کے آنسوں نا روئے تو کیا کرے ؎
جب لوگ یہ کہتے ہیںخدا دیکھ رہا ہے
میں سوچنے لگتا ہوں کیا دیکھ رہا ہے
وادی ٔکرناہ کے عوام پچھلی کہیں دہایئوں سے ایسے نہ جانے کتنے دردناک حادثوں کوجھیلتے اورسہتے آئے ہیں، حد تو یہ کہ اس اکیسویں صدی میں بھی ان کی چیخ و پکار ان کانوں تک نہیں پہنچتی جو 1996 سے اس مظلوم عوام کوجھوٹے خواب دکھا کر اپنا اُ لوسیدھا کر تے آئے ہیں۔میری اس تحریر کا مقصد کسی سیاسی جماعت، کسی انجمن یا کسی فرد کو نشانہ ٔ ملامت یا ہدف ِ تنقید بنانا نہیں ہے اورنہ ہی ان پر کوئی الزام لگانا ، میں تو بس اس فکر میں ہوں کہ کیا ان کی جواب دہی نہ ہو گی؟کیا وہ سمجھتے ہیں ان کو ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے؟کیا وہ اپنے فرائض کے جوا بدہ نہیں ہوں گےاور اگر ہوں گے تو وہ کس منہ سے اُن لوگوں کی آہوں کا سامنا کریں گے۔ یہ سوال اکثر مجھے پریشان کرتا رہتا ہے کہ کیا یہ آہیں ان کو چین سے سونے دیتی ہیں ؟ یا پھر یہ آہیں ان کے گوش گذار ہوتیں ہی نہیں… اگریہ مان لیا جائے کہ حقیقت میں وہ ان سے بے خبر ہیں توسوال یہ ہے کہ بھلا ایسے کون سے عناصرہیں جو ان فریادوں کو اقتدار اعلیٰ کے کانوں اورنگاہوں سے اُوجھل کئے ہوئے ہیں۔کوئی تو وجہ ضرور ہوگی کہ سینکڑوں دلدوز حادثات اور ہزارہا افراد کے جان بحق ہو جانے کے بعد بھی اربابِ اقتدار بے حس بنے ہوئے ہیں … متاثرین فریاد بھی کریں تو کس سے ؟
عرصہ ٔدراز سے ہی نستہ چھن گلی پر ٹنل کی تعمیر کا معاملہ ووٹ بٹورنے کا طاقتور ذریعہ رہا ہے اور مظلوم عوام بیوقوف بنتے چلے آئے ہیں ۔کیا بھولے بھالے عوام کا قصوریہ ہے کہ ان کا مسکن وہ سرحدی علاقہ ہے جو تقسیم ہند سے پہلے ایک بڑی تجارتی منڈی ہو ا کرتا تھا یایہ کہ اس کی زرخیز مٹی عرصہ دراز سے اتنے وسائل کم ہونے کے باوجود نت نئی با اثر شخصیات کوجنم دے رہی ہے یا پھر یہ کہ اس نے ہمیشہ امن شانتی میں قابل ستائش کردار نبھایا……آپ کسی سے بھی پوچھئے شانتی نگر کہاں ہے تو برجستہ یہ جواب ملے گا…ـ’’ کرناہ‘‘ وادی کرناہ کی عوام دوستی کے سبب ہی اسے شانتی نگر کہا جاتا ہے مگر افسوس اس دوستی کے آڑ میں وہ بھی اس نستہ چھن گلی کا شکار ہو تے چلے آئے ہیں۔ اسے ستم ظریفی ہی کہئے جو اس مظلوم عوام کی فریاد اقتدار اعلیٰ کیلئے کبھی ضروری نہیں بنی۔2010 ء میں جب مقامی مظلوم عوام کے ساتھ یہ مذاق کیا گیاکہ نستہ چھن گلی پر ٹنل کی تعمیر ہو گی تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نا تھا۔ میں وہ خوشی جیا ہوں، اس لئے مجھ سے بہتر کوئی اور اس کا اظہار نہیںکر سکتا ۔ اگر کسی کو خوشی دے کر چھین لی جائے تو ظاہر ہے کڑواہٹ آپ کے حصہ میں آئے گی مگر مظلوم عوام نے صبر کا دامن تب بھی نہیں چھوڑا۔2011میں جب اس عوام کو ایک بار پھر سروے کے نام پر مداری کے بندر کی طرح نچایا گیا تب بھی انہیں لگاکہ اب کی بار شائد اُن کے جذبات،احساسات اور مشکلات کو کوئی سمجھے مگر ستم بالائے ستم کہ درد بڑھتا ہی گیا کیوںکہ کوئی دوا جو نہ ہوئی
کرناہ کے غریب عوام کے جذبات اور احساسات کی کیفیت نہ میں کبھی لکھ پا ئوں گا اور نا ہی کبھی اس درد سے دور جا پائوں گا کیوں کہ میری روح کو ماں کی لاش کندھے پر اُٹھائے اس بیٹے کی چیخ و پکار کر رہی اُن مائوں ، چپ چاپ آنسوبہاتی ان بہنوں اور اس کر یہہ الصورت منظر سے ان سب پرنم آنکھوں نے جھنجھوڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا ہے…… میرا ضمیر مجھے کوس رہا ہے مگر میںبے بس ولاچار ہوں…… اپنے دل کی بات اربابِ اقتدار تک پہنچانے کا واحد یہی مقصد یہی ہے کہ میری روح کو کچھ راحت نصیب ہو … میری ارباب اقتدار سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ خدا رامجھے وہ ہنر سکھلا دیں جس سے وہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود چین کی نیند سو جاتے ہیں… میں بھی سونا چاہتا ہوں کیوں کہ متاثرین کی یہ سردآہیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ کیا میں بھی حکومت بن چکا ہوں؟
فو ن نمبر9697394893