کتوں کی خونچکانی حقوق ِحیوانات بجا،انسانوں کو بھی تو بچائیں!

وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی انسانوں کیلئے وبال جان بن چکی ہے ۔کتوں کا انسانی خون کا کس قدر چسکا لگ چکا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ہسپتال سرینگرکے اینٹی ریبیز وارڈ میں پچھلے چھ مہینوں کے دوران کم از کم 3300 کیس موصول ہوئے ہیں جنہیں کتوں نے کاٹاتھا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اپریل سے 20 ستمبر تک پہلے، دوسرے اور تیسرے زمرے میں یہ 3300 کیس موصول ہوئے ہیں۔صرف صدر ہسپتال میں اپریل 2015 سے ستمبر 2022تک ایسے 45,808افراد کا علاج و معالجہ ہوا ہے جنہیں کتوں نے کاٹاتھا۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اپریل 2021 سے مارچ 2022 تک 5469 افراد کو کتوں نے کاٹا ہے۔ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں اپریل 2020 سے مارچ 2021 تک کتوں کے کاٹنے کے کل 4808 کیس رپورٹ ہوئے ہیںجبکہ اپریل 2019 سے مارچ 2020 تک 6139 کیس،اپریل 2018 سے مارچ 2019 تک 6397، 2017 سے 2018 تک 6802 کیس اور 2015 سے 2016 تک 7061 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ان میں سے80فیصد معاملات کا تعلق صرف سرینگر شہر اور مضافاتی اضلاع سے تھا۔گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر شعبہ کمیو نٹی میڈیسن کی ایک رپورٹ کے مطابق سرینگر اور جموںکے میونسپل حدود میں سالانہ8سے10ہزار لوگوں کو آوارہ کتے کاٹتے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کتوں کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ کتوں کی جارحیت کا نشانہ بننے والے افراد کے تناسب نکالنے سے اخذ ہوتاہے کہ فی دن کتوں نے اس مدت کے دوران27افراد کو کاٹ کھایا۔ اگر وادی کے 9اضلاع کے طبی اداروں سے اعدادو شمار حاصل کئے جائیں توشہریوں کو کتوں کے ذریعہ کاٹے جانے کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔جموںوکشمیر کے شہروںاور قصبہ جات میں لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے ، لیکن انتظامیہ ہے کہ اس تختہ مشق کا خاموشی کے ساتھ نظارہ کرنے میں مصروف ہے۔ آج بستیوں اور قصبہ جات میں جہاں سے بھی گذر ہوتاہے ، غول درغول آوارہ کتّے لوگوں کے لئے سدراہ بنتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں کی تعداد میں راہ گیران کے حملوں کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے اور کئی ایک کی تو موت بھی واقع ہوئی ۔آئے روز میڈیا کے توسط سے وادی میںآوارہ کتوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے ۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک قانون بنایا ہے ، جس کی رو سے آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے ،لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات موجود ہیں ،مگر یہاںانتظامیہ نے جہاں ایک جانب بستیوں کے اندر غول در غورل گھوم رہی اس موذی مخلوق کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا ،وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی ٹھوس پروگرام عمل میں نہیں لایا ، جس کی وجہ سے صورتحال دن بہ دن بے قابو ہورہی ہے۔ کتّوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے حقوقِ حیوان کے کارکنوں کے تحفظات اپنی جگہ بجا لیکن عام لوگوں کو آئے دن اس مخلوق کی جانب سے جن بے بیاں مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ،اُس پر انہیں نہ تو کوئی افسوس ہے اور نہ ہی انسانی جانوں کے زیاں کی پرواہ۔ فی الوقت یہ ایک حقیقت ہے کہ جموںوکشمیرمیں آوارہ کتّے ایک عوامی مصیبت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جس پر انتظامیہ اور حقوق حیوان کی تنظیموں نے کبھی رنج اور تاسف کا اظہار نہیں کیاہے ، بلکہ اس کے برعکس حقوق تنظیموں نے مختلف اوقات پر انتظامیہ پر دبائو قائم کرکے اپنی بات منوانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو ایسے کتّوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ، جو سماج کے لئے مصیبت کا درجہ اختیار کریں ، لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہاہے۔اگرچہ ماضی میں صوبائی انتظامیہ نے باولے کتّوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا گیاتھا ،لیکن حقوق تنظیموں کے دبائو میں آکر یہ حکم فوراً واپس لیا تھا، حالانکہ بائولے کتّوں کا دفاع کرنا قطعی طور پر ناقابل فہم ہے۔ کتوں کی بڑھتی خونچکانی کی وجہ سے عوامی حلقوں یہ بحث دوبارہ چھڑ گئی ہے کہ کیاحیوانات کے حقوق کیلئے کام کر رہی تنظیموں کے دبائو میں آکر کتوں کی آبادی کو مسلسل بڑھنے دیا جائے یا پھر انسانی نسل کی بقاء کیلئے کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری قدغن لگانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ماحول میں قدرتی توازن برقرار رکھنے کیلئے ہر شئے ،چاہئے وہ جاندار ہو یا بے جان ،اپنے آپ میں قیمتی ہے اور ان عناصر کی عدم موجودگی میں انسانی بقا ء کے بار ے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے لیکن جب یہ توازن بگڑجاتا ہے کہ تو مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ایک مخصوص حد تک کتوں کی آبادی ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کیلئے لازمی ہے لیکن جب یہ تناسب حد سے متجاوز ہو تو کتوں کی موجودہ وبا ء کی صورت میں ایک سنگین بحران کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا شہریوں اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جہاں تک کتوں کی آبادی پر چیک لگانے کا تعلق ہے تو اس میں عام شہریوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی سہولیات کا لحاظ رکھتے ہوئے آوارہ اور پاگل کتوں سے اپنی شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے۔جہاں تک یوٹی سرکار کا تعلق ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سرکار نے آج تک اس حوالہ سے کوئی سنجیدہ اقدام ہی نہیں کیا اور ہر بار منیکا گاندھی جیسے حیوانات کے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد کی جانب سے ایسی کارروائیوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے امکان کا بہانہ بنا کر متعلقین نے اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنگین بحران کی جانب فوری توجہ دی جائے اور آوارہ اور پاگل کتوں کی وباء پر قابو پانے کے جتن کئے جائیں ،نیز ہسپتالوں میں اس حوالہ سے معقول طبی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے اور ہر طبی مرکز پر انٹی ریبیز انجکشن دستیاب رکھے جائیں تاکہ بوقت ضرورت کتوں کے کاٹے ہوئے مریضو ں کو شہروں کے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے اپنے ہی علاقوں میں معقول طبی نگہداشت مل سکے۔