کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : بہت سارے اسلامی مدارس ،یتیم خانے،بیت المال کے منتظمین اپنے اداروں کے لئے چندہ جمع کرنے والے افراد کو کمیشن کی بنیاد پر چندہ کراتے ہیں۔اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چندہ کرنے والے سفیر کو جمع شدہ چندہ میں سے کچھ فیصد مثلاً نصف نصف ،چالیس فیصد ،تیس فیصد یا کم و زیادہ فیصدی رقم بطور معاوضہ کے مقرر کرتے ہیں۔اب یہ چند ہ کرنے والا زیادہ سے زیادہ محنت اس لئے کرتا ہے تاکہ اس کا معاوضہ بھی بڑھ جائے۔اس طرح کمیشن پر چندہ کرنے کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ،کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟
وسیم اقبال ۔سوپور

دینی اور سماجی اداروں کے لئے کمیشن پر چندہ جمع کرانا ناجائز
جواب:کمیشن پر چندہ کرنا اور کروانا دونوں جائز نہیں ہیں۔جو ادارہ کمیشن پر چندہ کراتا ہے اور جو شخص سفیر بن کر کمیشن پر چندہ کرتا ہے وہ دونوں غیر شرعی عمل کے مرتکب ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے آن لائن فتویٰ میں نیزفتاویٰ محمودیہ ،احسن الفتاویٰ ،امداد الفتاوی وغیرہ میں تفصیل سے اس طرح کمیشن پر چندہ کرنے اور کرانے کو ناجائز لکھا ہے۔اس کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں :کمیشن پر چندہ کرنے میں اُجرت مجہول ہےاور شرعاً اُجرت ِ مجہول پر کسی کو اجیر رکھنا اور اجیر بننا جائز نہیں ہے اور چندہ کرنے والا سفیر ادارہ کا اجیر ہوتا ہے، نیز اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز سے اُجرت مقرر کرنا جائز نہیں اور کمیشن میں یہی ہوتا ہے کہ سفیر جو رقم لاتا ہے اُسی رقم سے اُسے اجرت دی جاتی ہے۔قفیز طحان میں جو وجوہات عدم جواز کی ہیں وہ تمام وجوہات زیادہ شدت کے ساتھ اس میں پائی جاتی ہیں۔اس لئے کمیشن پر چندہ کرنے اور کرانے سے اجتناب لازم ہے اور اس میں چندہ دینے والوں کو ایک قسم کا دھوکہ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : آج کل بہت سارے ڈاکٹر مختلف بہانوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں۔مثلاً کسی خاص لیب پر کسی دوسرے ڈاکٹر سے یا کسی خاص ہسپتال کو ریفر کرتے ہیںاور مریض جب اُس خاص لیب پر مختلف ٹسٹ کراتا ہے یا اُس خاص ڈاکٹر سے یا اُس مقررہ ہسپتال سے علاج کراتا ہے تو ریفر کرنے والے ڈاکٹر کو کمیشن لینا ہوتا ہے۔اس طرح اس کمیشن کی وجہ سے علاج مہنگا سے مہنگا ہوگیا ہےاور اس میں بیماروں کا بہت استحصال ہوتا ہے ۔کیا شرعی طور پر یہ کمیشن لیناجائز ہے؟جواب تحریر فرمائیں۔
ڈاکٹر پرویز احمد ،صورہ سرینگر

ڈاکٹر ی پیشہ میں کمیشن خوری غیر شرعی عمل
جواب :ادارہ مباحث ِ فقہیہ جمیعتہ علمائے ہند کے زیر اہتمام منعقد ہ مفتیان کرام کی ایک کثیر تعداد کے اجتماع میں متفقہ طور پر جو فیصلہ ہوا ہے ،وہ یہ ہے۔معالجین کی طرف سے کمیشن لینے کے رواج سے علاج گراں سے گراں تر ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہیں۔حسب ضرورت ٹیسٹ تجویز کرنا،کسی اور ڈاکٹر یا ہسپتال کو ریفر کرنا معالج کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا لیب ہسپتال یا کسی اور ڈاکٹر ،جس کی طرف سے ریفر کیا گیا ،اُن سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔ان تمام کاموں کی فیس ڈاکٹر لے چکاہوتا ہے۔اگر ڈاکٹر کسی ہسپتال میں ہو تو وہ تنخواہ لیتا ہے یا پرائیویٹ ملا حظہ کرے تو مریض سے فیس لیتا ہے۔اس تنخواہ یا فیس کی بناء اُس ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی کمیشن کسی سے نہ لے۔دراصل کمیشن کی یہ رقم بھی مریض سے ہی وصول ہوتی اور اُسے خبر بھی نہیں ہوتی ہے کہ مختلف ٹیسٹ کرنے میں اُسے ریفر کرنے والے ڈاکٹر کے لئےکمیشن کی رقم بھی دینی پڑ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :مغربی تہذیب کے پھیلائو کے نتیجے میں جو جو نئی رسمیں پھیل چکی ہیں، اُن میں سے ایک مشہور عام تقریب برتھ ڈے بھی ہے۔سالگرہ کی یہ رسم بچوں کے یوم ولادت پر منائی جاتی ہے۔اس فنکشن میں دوستوں ،رشتہ داروں کو جمع کیا جاتا ہے ،پھر کہیں کیک کاٹا جاتا ،کہیں موم بتی جلائی جاتی ہے،کہیں بچے کو ہار پہنایا جاتا ہے،کہیں کچھ اور ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ سالگرہ برتھ ڈے منانا درست ہے یا نہیں۔واضح رہے کہ یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے،خاص کر عصری تعلیم سے آراستہ افراد اس رسم کا شوق رکھتے ہیں ،اگرچہ ابھی اُن کی تعداد کم ہے۔
محمد عارف شیخ،بمنہ سرینگر

سالگرہ منانے کا معاملہ ،عہد ِ نبوی ؐ میں کوئی ثبوت نہیں
جواب :سالگرہ منانا ایک غیر شرعی عمل ہے۔اس لئے کہ یہ رسم نہ تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ حضرات صحابہ ،نہ تابعین کے عہد میں اور نہ فقہا ء ،محدثین اوراولیاء کرام کے اقوال میں اس کا کوئی سراغ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ برتھ ڈے مغربی اقوام سے درآمد شدہ ایک ایسی رسم ہے جس میں اُن دوسری اقوام کی نقالی ہوتی ہے،اسراف ہوتا ہے اور اگر موم بتیاں جلائی جائیں،کیک کاٹے جائیں اور اس طرح کی دوسری غلط حرکات کی جائیں تو اس کی قباحت اور بھی بڑھ کر ہوگی۔فتاویٰ حقانیہ،کفایت المفتی ،فتاویٰ دارالعلوم زکریا افریقہ ،فتاوی رحیمیہ ،احسن الفتاویٰ،فتاویٰ محمودیہ ،کتاب الفتاویٰ اور فتاویٰ دارالعلوم دیوبند آن لائن وغیرہ میں برتھ ڈے کے غیر شرعی عمل ہونے کا فتویٰ صراحت سے موجود ہے۔اس لئے اس رسم سے اجتناب کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :انسان بیمار ہوتا ہے تو اہلِ خانہ علاج و معالجہ ،خدمت و تیمارداری کرتے ہیںاور جب فوت ہوتا ہے تو ایصال ثواب اورد عائے مغفرت کرتے ہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ایصال ثواب کرنے کا طریقہ کیا ہےاور کن کن طریقوں سے ایصال ثواب کرنا درست ہے۔اسی سوال کا جواب بہت سارے افراد کے لئے اضافہ علم کا سبب ہوگا۔
محمد فیضان ۔رعناواری سرینگر

مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب کا عمل، چند وضاحتیں
جواب :ایصال ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کوئی بھی نفلی عبادت کرے ،مثلاً صدقہ ،خیرات کرے،قرآن کریم کی تلاوت کرے،نفلی نماز پڑھے،پھر یہ دُعا کرے کہ اس عمل کا ثواب فلاں فرد کو بخش دیا جائے۔نفلی عبادت کی دو قسمیں،مالی عبادت جیسے صدقہ ،خیرات اوربدنی عبادت جیسے تلاوت قرآن ،تسبیحات و تکبیرات و تہلیلات وغیرہ۔
حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ میری والددہ کی وفات ہوگئی ۔میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا میں اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں،تو حضرت رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو میں نے ایک باغ صدقہ کیا ۔یہ حدیث بخاری ،مسلم ،ترمذی وغیرہ میں ہے۔اس حدیث سے مالی عبادت کا ایصال ِ ثواب ثابت ہے۔
حضرت معقل بن یسار سے منقول ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،مُردوں پر سورہ یٰسین پڑھا کرو۔(ابو دائود)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے جو شخص قبرستان میں گیارہ مرتبہ سورہ قل ھو اللہ شریف پڑھ کر اہلِ مقبرہ کو ایصال ثواب کرے تو قبرستان کے مُردوں کے بقدر ثواب ملے گا ۔( اعلاء السنن)
علامہ کاسانیؒ نے لکھا ،جس نے روزہ رکھا ،نماز پڑھی یا صدقہ کیا ،پھر اس کا ثواب مُردوں کو بخش دیا تو یہ ثواب اُن کو پہنچ جائے گا۔
علامہ ابن تیمیہؒ نے لکھا ،اہلِ سنت والجماعت اس پر متفق ہے کہ عبادت مالیہ کا ایصال ثواب درست ہے ۔اور عبادت ِ بدنیہ کا ایصال ِ ثواب بھی درست ہے(فتاوی ابن تیمیہؒ)علامہ ابن قیمؒ نے کتاب الروح میں لکھا ،قرآن کی قرأت کا ثواب بھی مُردوں کو اُسی طرح پہنچ جاتا ہے جس طرح روزہ و حج کا ثواب پہنچ جاتا ہے(کتاب الروح۔ص،۲۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :تقریباًہر مسلمان کو قبرستان جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔خصوصاً اقارب ،مثلاً والدین یا اولادیا دوسرے رشتہ دار وں کے مقبرہ پربغرض ایصال ِ ثواب جانا ہوتا ہے،اس بارے میں چند سوالات یہ ہیں:مقبرہ پر کس نیت سے جانا چاہئے،وہاں جاکر ایصالِ ثواب کس طرح کرنا چاہئے،کیا وہاں ہاتھ اُٹھاکر دعا مانگ سکتے ہیں ،مقبرہ میں کن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے؟
شبیر احمد خان۔اننت ناگ کشمیر

قبرستان میں ایصال ِ ثواب کے لئے جانا پسندیدہ عمل
جواب : قبرستان جانا نہ صرف جائز ہے بلکہ پسندیدہ عمل ہے۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقبرہ جانے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ اس سے تم کو خود بھی آخرت کی یاد دہانی ہوگی۔مقبرہ جانے میں پہلا اہم مقصد یہی ہے کہ انسان کو اپنی قبر یاد رہےاور فکر ِ آخرت کا جذبہ اور داعیہ برقرار رہے گا۔
دوسرا مقصد اہلِ مقبرہ کے لئے دعائے مغفرت ہے۔اس کے لئے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعائیں منقول ہیں ،وہی دعائیںپڑھنی چاہئے۔تیسرا مقصد یہ کہ مُردوں کے لئے ایصال ِ ثواب کیا جائے۔حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اپنے مُردوں پر سورہ یٰسین شریف پڑھا کرو۔(سنن ابن دائود)
حضرت علی ؓسے مرفوعاًمنقول ہے کہ جو شخص مقبرے سے گزرے اور سورہ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے اور اُس کا ثواب مُردوں کو بخش دے تو قبرستان کے مُردوں کے بقدر اُس کو اجر ملے گا۔(اعلاء السنن)
غرض کہ سوری یٰسین شریف،سورہ اخلاص اور تسبیحات ،تہلیلات وغیرہ پڑھ کر مُردوں کو ایصال ثواب کیا جائے ۔چوتھا کام دعا کرنا ۔دُعا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ رُو بقبلہ ہوکر دعا کرےاور وہ نیت کرے کہ میں اللہ سے دُعا کروں گا ،پھر اپنے لئے دعا کرے اور مقبرہ میں مدفون مُردوں کے لئے دُعا ئے مغفرت کرے۔ مقبرہ میں دُنیوی باتیں کرنا ،ہنسنا ، کھیلنا ،قبروں کے اوپر چلنا ،قبروں پر بیٹھنا وغیرہ منع ہے۔ان باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔