نکاح آدھا ایمان ہے فرمانِ رسولؐ

مشتاق تعظیم کشمیری
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا ،لہٰذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرے۔ (شعب الِيمان :5100)نکاح آدھا ایمان ہے، نکاح ایک پاکیزہ، مقدّس رشتہ ہے۔یہ ہر گھر کی بنیاد ہے، وہی گھرجس سے پورا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے اِن دونوں سے بہت سے مَرد اور عورتیں پھیلا دیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے عورت کو مَرد کی پسلی سے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اِن دونوں کا ایک دوسرے سے کٹ کر زندگی گزارنا ممکن نہیں ،گرچہ کئی مذاہب میں رہبانیت کا تصوّر عام ہے، لیکن دین ِ اسلام میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ہمارے دین میں نکاح کو پسند فرمایا گیا ہے اور نکاح کے بعد گزارے جانے والی زندگی کو بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے ۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے’’نکاح میری سنّت ہے‘‘ اسی طرح نکاح کو ایک اور جگہ آدھا ایمان قرار دیا اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل یا فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں، بلکہ یہ نسلِ انسانی کی بقا و تحفّظ کے لیے بھی لازم ہے۔ اسی لیے اسے اہم فطری ضرورت کے ساتھ عبادت سے بھی تعبیر فرمایا گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضورِ پاکؐ نے ارشاد فرمایا، ’’ تین آدمی ایسے ہیں، جن کی مدد اللہ تعالیٰ پر لازم ہے۔ ان میں سے ایک وہ نکاح کرنے والا بھی ہے ،جو پاک دامنی کا ارادہ رکھتا ہو۔‘‘ یعنی جو نکاح کے بندھن میں بندھ گیا، اس کی عِفّت و عِصمت تو ایک پناہ گاہ میں محفوظ ہو ہی گئی، مگر ربّ تعالیٰ غیب سے اُس کے لیے وسائل کی فراہمی کا بھی وعدہ فرماتا ہے،انسانی معاشرے میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ایک خاندان کی برابری کرسکے۔ ایک نکاح ہی وہ بندھن ہے، جس کے نتیجے میں نیا گھر وجود میں آتا ہے اور پھر یہ ایک ایسا ادارہ ثابت ہوتا ہے، جہاں نسلِ انسانی کی بقا و تحفّظ اور تعلیم و تربیت کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ نیز مَرد و عورت کو ایسا ٹھکانا میسّر آجاتا ہے، جہاں وہ آرام وسُکون حاصل کرکے باہر کی بے ہنگم، افراتفری سے بَھرپور زندگی سے نجات پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو فراخیٔ رزق کا بھی ذریعہ بنایا ہے کہ جس تناسب سے گھر کے افراد میں اضافہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے رزق بھی کشادہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر جہاں زوجین اکٹھے اور اتفاق سے زندگی گزار رہے ہوں، وہاں لوگوں کو ان کے اخلاق، چال چلن پر بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی ،اس کے برعکس تنہا مَرد یا عورت باآسانی ہدفِ تنقید بن جاتے ہیں۔ سوآج کے اس پُرفتن دَور میں ہم سب کی ذمّے داری ہے کہ نکاح کے فیوض وبرکات عام کریں اور نکاح کو آسان سے آسان تر بنانے کے لیے کوششں کریں تاکہ ایک مہذّب و صالح معاشرہ پروان چڑھ سکے۔