کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احما قاسمی

س:-آج کل کشمیر میں بیشتر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بنائو سنگھار کرکے گھرسے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں وشادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتاہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بنائو سنگار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتاہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لئے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
شبیر احمد ۔ سرینگر

شوہر کیلئےخواتین کی زیب وزینت باعثِ اجرو ثواب
جواب:اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرحال میںبنائو سنگھارکاشوق رکھتی ہیںاور یہ مزاج اور شوق دراصل ایک اہم مقصد کے لئے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ،ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بلکہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کااہتمام کریں گے ۔ اس لئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پوراکرے مگر ا س طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بنائو سنگھار(مگر شریعت کے دائرے میں)کرکے شوہرکوخوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہروقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لئے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لئے معطر و پُرکشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لئے یہ سب باعث اجر وثواب ہوگا ۔
لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لئے بنائو سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگرغیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عو رتوں میں اپنی عزت وبرتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر وبرتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔
عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ،اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر وہ ایسا بنائو سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوجائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔کیونکہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔
اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بنائو سنگھار مت کرو)۔ اس میںایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کوجاہلانہ کہاہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لئے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کوجاہلانہ روش قرار دیاہے ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے اچھا لباس ،اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ،بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیرمردوں کا سامنا ہو ایسا بنائو سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہوجائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- ایک لڑکی اگر طلاق لینا چا ہے تو کیا وہ زیورات اور دیگر اموال ،واپس لاسکتی ہے یا کہ اس پر شوہر کا ہی حق ہے اور وہ اس کو اپنے پاس رکھ سکتاہے ۔جب کہ بدلِ خلع میں شوہر صرف حق مہر کا ہی حقدار ہوتاہے ۔
سوال:۲-دوسری صورت اگر لڑکا طلاق دینا چاہے تو وہ لڑکی کو مائیکہ اور سسرال اور سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے دیئے گئے تحائف لڑکی کو واپس کرسکتاہے یا نہیں ؟
نورالحسن …بھدرواہ

شوہر میں خرابی ہو تو خلع کا عوض لینا گناہ
جواب:۱-جب زوجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو شوہر کو حق ہے کہ وہ عوضِ طلاق کا مطالبہ کرے لیکن اگر شوہر کے ظلم یا کسی دوسری کوتاہی کی بناء پر زوجہ مجبورہوکر طلاق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر کا عوض طلب کرنا جائز نہیں ہے ۔ اب اگر اس نے عوض طلب کرلیا اور لڑکی اپنی گلوخلاصی کے لئے مجبوراً عوض دیدے تو عورت کو کوئی گناہ نہ ہوگا۔اگر بدل طلاق جس کو بدلِ خلع بھی کہتے ہیں ،میں صرف مہر طے ہوا تو بقیہ تمام چیزیں عورت کا ہی حق ہے اور اگر بدلِ خلع میں مہر اور دیگر اشیاء کا مطالبہ کیا گیا اور عورت نے اپنی جان چھڑانے کے لئے مجبوراً قبول کرلیا تو پھر مہر اور دیگر وہ اشیاء جو بدلِ خلع میں طے کی گئیں وہ شوہر کو دینی ہوں گی ۔
جب کوئی شوہر یہ کہے کہ میری بیوی مجھ سے چھٹکارا چاہتی ہے میں کس کس چیز کا مطالبہ کرسکتاہوں تو جواب یہ ہوگاکہ اگر وہ خواہ مخواہ رشتہ ختم کرنے پر مُصر ہے تو پھر جومہر اور زیورات شوہر نے دئے ہیں اُن کی واپسی کی شرط پر خلع کرسکتے ہیں لیکن اگر خامی اورخرابی شوہر میں ہے تو کچھ بھی لینا گناہ ہے ۔
جواب:۲-جب شوہر از خود طلاق دے تو ایسی صورت میں عورت کو مہر اور دیگر تمام اشیاء چاہے وہ میکے والوں کی طرف سے دی گئی ہوں یا سسرال والوں کی طرف سے ، یہ سب اُس مطلقہ کا حق ہے اور شوہر اُن میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-ہمارے گائوں میں نئی جامع مسجد شریف کی تعمیر ہوئی ۔ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہم نے اسی ادھوری تعمیر (under Construction) مسجد میں نماز ادا کی ۔ اب چونکہ ہم اس کی باقی مرمت اندر سے کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا کام کرنے والے جوتے پہن کر اندرجاسکتے ہیں یا نہیں ؟
غلام محمد چوپان

مسجد کی داخلی مرمت کے دوران پاپوش پہننے کا مسئلہ
جواب:-مسجد کے اندر نامکمل تعمیر کو مکمل کرنے کے لئے اگر جوتے یا چپل پہننے کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے نئے چپل یا جوتے خریدے جائیں جو صرف مسجد کے اندر تعمیری کام کے دوران استعمال ہوں اور وہ جوتے یا چپل مسجد کے باہر ہرگز استعمال نہ کئے جائیں اور جب کام ختم ہوجائے تو پھر باہر استعمال کرسکتے ہیں ۔ باہر کے استعمال سے ان کے ناپاک ہونے کاخدشہ ہے اس لئے یہ حکم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-جس جگہ مسجد تعمیر تھی ، پھر شہید کی گئی اور نئی مسجد کسی دوسری جگہ تعمیر کی گئی ۔پرانی مسجد کی جگہ کے لئے کیا احکامات اور حقوق ہیں ؟
سوال:۲- کیا مسجد کے لئے وقف کی ہوئی چیزیں مثلاً فرش ، لیمپ ، گھڑیاں وغیرہ کسی دینی ادارہ یا درس گاہ یا مسجد کے مولوی صاحب کے ذاتی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
محمد اکبر لون۔پلوامہ

مسجد خدا کا گھر۔دوسری جگہ منتقل کرنا درست نہیں
جواب:۱-مسجد اللہ کا گھرہے اور جہاں ایک مرتبہ مسجد بن گئی وہاں سے مسجد کو شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کرنا ہرگزدُرست نہیں ۔ اگر کہیں مسجد شہید کردی گئی تو وہاں دوبارہ مسجد تعمیر کرکے اسے آباد کرنا وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے ۔ اگروہاں مسلمان آبادی نہ ہوتو دوسری جگہوں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اُس مسجد کی جگہ کی دیوار بندی کرکے اسے محفوظ کرایں ۔
مسجد کے لئے وقف شدہ اشیاء کا استعمال
جواب:۲-مسجد کے لئے وقف شدہ اشیاء کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اس لئے وقف شدہ اشیاء اس ادارے(مسجد ، مدرسہ ، یتیم خانہ وغیرہ)کی ملکیت ہوتے ہیں ۔اس لئے حدیث میں املاک وقف کے متعلق ارشاد ہے کہ نہ وہ فروخت کی جائیں ، نہ کسی کو بطور تحفہ دی جائیں نہ بطور وراثت کسی کو دی جائیں ۔ بخاری شریف میں حضرت عمربن خطابؓ کے اراضی خیبر کے متعلق حکم رسول ؐ یہی تھا ۔ اسی لئے تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ وقف کی املاک کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کرسکتے ۔ مسجد کا لیمپ،گیس وغیرہ اگر وقف کرتے وقت منتظمین کو اختیار دیا گیا ہے اور وہ انتظامیہ اس واقف کے دئے ہوئے اختیار کی بناء پر یہ اشیاء امام صاحب کو یا کسی دوسرے ادارے کو دیں تو اس کی گنجائش ہے ۔ اگر اجازت نہ ہو تو پھر دُرست نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال- ایک شخص کو حج کرنے کی مالی طور استطاعت اس وقت ہوئی جب اس کی عمر 90سال کے قریب ہوئی ہے ۔ کمزوری کے علاوہ کئی مشکل بیماریوں میں مبتلا ہے ۔ کمراورگھٹنوں میں کافی تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے سے معذورہے۔پیشاب کی تکلیف ہے ۔ وہ حج بدل کراناچاہتاہے ۔ اس کا ایک بیٹا سعودی عرب میں کام کرتاہے۔ کیا وہ باپ کے بدلے حج کرسکتاہے ؟ بیٹا آسودہ حال ہے مگر علیحدہ رہتاہے ۔ کیا وہ خود خرچ کرسکتاہے یا باپ کے روپے سے ہی حج بدل کراناواجب ہے یا یہاں سے ہی بیٹے یا کسی رشتہ دار کو بھیجنا لازمی ہے اور اگر ان میں سے کوئی جانے کے لئے تیار نہ ہو تو کیا کسی اور واقف کار مسلمان سے حج بدل کراسکتاہے ۔ اگر ان تینوں صورتوں میں حج بدل کرانا ممکن نہ ہو تو کیا ایسا شخص حج کرانے کے لئے جتنا خرچ درکار ہو اتنی رقم ایسے علیل مفلس، لاچار ،بیمار کو جس کو دل ، گردے یا کوئی نازک نوعیت کا آپریشن کرانے کی ضرورت ہو، دے سکتاہے ۔ کیا ایسا کرنے سے حج کا فرض پورا ہوگا ؟ براہ کرم پوری رہبری سے نوازیں ۔
ایک طالب حج …
حج بدل…چند وضاحتیں
جواب:-فریضہ حج کی ادائیگی ہراُس مسلمان پر لازم ہے جس کو اللہ نے مالی وسعت بھی دی ہو اور وہ سفر کے بھی قابل ہو ۔ اب اگر کوئی سفر کرنے کے قابل نہیں تو وہ حج بدل کراسکتاہے ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خاتون نے سوال کیا کہ میرے والد پر حج فرض ہوچکاہے مگر وہ سواری پر بھی بیٹھنے کی قوت بھی نہیں رکھتا ،کیا میں اس کی طرف سے حج اداکرسکتی ہوں ؟ تو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے باپ پر کسی کا قرضہ ہو تو تم اُس کی طرف سے قرضہ اداکرو تو کیا وہ قرضہ ادا ہوجائے گا۔ اُس خاتون نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اس پر ارشاد گرامی ہوا کہ اسی طرح حج بھی اللہ کا قرض ہے ،یہ بھی ادا ہوگا۔ یہ حدیث بخاری ، مسلم وغیرہ اکثر حدیث کی کتابوں میں ہے ۔لہٰذااپنی طرف سے کسی شخص کو حج بدل کی نیت سے بھیجنا دُرست ہے اور اس جیسی اور کئی احادیث سے حج بدل کا ثبوت ملتاہے ۔
یہ رقم اگرکسی غریب مفلس پر خرچ کی جائے تو اس سے حج کا فرض ہرگز معاف نہ ہوگا۔ غرباء ومساکین کا مالی تعاون الگ عمل ہے اور حج بالکل الگ ہے ، اس لئے جس شخص نے اپنا حج کیا ہو ابس کو حج بدل کے لئے بھیج دیا جائے اور جتنا حج کا ضروری اور لازمی خرچہ ہو وہ ابس کو دے دیا جائے تو ضرور اس طرح حج بد ل ادا ہو جائے گا ۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے مسائل حج وعمرہ از مولانا رفعت قاسمی ۔