کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : جب کسی عورت کا شوہر وفات پاتا ہے تو اُس عورت کے لئے کیا حکم ہے؟ہمارے معاشرے میں اکثر عورتیں اس سے لاعلم ہیں اور عمل میں بھی کوتا ہی پائی جاتی ہے۔
فاطمہ کوثر۔بمنہ سرینگر
شوہر کی فوتیدگی پر بیوہ کا عمل کیا ہو؟

جواب : جب کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو اُس کے لئے شریعت نے متعدد احکام بیان کئے ہیں ۔ایک یہ کہ وہ عدت گذارے،یعنی چار ماہ دس دن تک وہ دوسرا نکاح نہیں کرسکتی ہے۔اگر وہ حا لتِ حمل میں ہو تو پھر اُس کی عدت ِوضع حمل ہے،چاہے یہ جتنے بھی دنوں میں ہوجائے،یہ پہلا حکم ہوا۔دوسرا حکم یہ ہے کہ یہ عورت ترکِ زینت کرے۔یعنی زیور ات نکال کر رکھے،سیدھے سادھے کپڑے پہنے،کریم ،پاوڈر ،سُرمہ وغیرہ لگانے سے پر ہیز کرےاور غم کی حالت میں یہ ایام ِ عدت گزارے۔تیسرا حکم ہے کہ جس گھر میں اُس کے شوہر کی وفات ہوئی ہے ،اُس گھر میں ہی مقیم رہےاور چار ماہ دس دن تک اُس گھر سے ہرگز نہ نکلے۔نہ شادیوں میں جائے نہ کہیں تعزیت میں جائے،نہ بازار وں ،دفتروں میں جائےاور نہ دوسری تقریبات میں جائے۔اگر وہ بیمار ہوجائے اور ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو صرف ڈاکٹر کے پاس جاکر واپس اُسی گھر میں آجائے۔اگر ضروریات کا سودا سلف لانے والا کوئی نہ ہو تو ایک ہی مرتبہ کئی کئی دن کے لئے ضرورت کی اشیاء لاکر رکھے۔اور تیسرا حکم یہ کہ شوہر کی جائیداد کی شرعی تقسیم کرائے اور اس کے لئےدوسرے مستحقین ِ وراثت کو بھی آمادہ کرے کہ وہ فوت شدہ شخص کی میراث کی شرعی تقسیم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : اکثر گھروں میں واشنگ مشینوں کا استعمال آج کل ہورہا ہے ۔اس میں ناپاک کپڑے بھی دھوئے جاتے ہیں ۔کبھی شک رہتا ہے کہ یہ کپڑے پاک ہوجاتے ہیں یا نہیں۔نیز یہ دوسرے کپڑوں کے ساتھ ڈالے جاتے ہیں ۔کہیں یہ اُن کو بھی ناپاک تو نہیں کرتے ۔اس کا جواب تمام لوگوں کے لئے ضروری ہے۔
سجاد احمد ۔حیدر پورہ سرینگر
ناپاک کپڑوں کی واشنگ مشین میں دُھلائی

جواب : ناپاک کپڑے اولاً واشنگ مشینوں میں ڈالے بغیر ہاتھوں سے اچھی طرح رگڑ کر پاک کرنے چاہئیں۔خاص کر وہ ناپاکی جو آسانی سے دور نہیں ہوتی۔مثلاً کپڑوں میں حیض یا منی کے قطرے لگ گئے اور خشک ہوکر کپڑے میں چپک گئے ہوں توایسے کپڑے اگر واشنگ مشین میں ڈالے جائیں گے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ناپاکی دور نہ ہو ،اس لئے کہ ہاتھوں سے جس طرح رگڑ رگڑ پاک کیا جاتا ،مشین میں ایسا نہیں ہوپاتا ۔۔۔ہاں ! اگر ناپاکی ایسی ہو جو آسانی سےجُدا ہوجاتی ہے ،مثلاً کپڑے میں پیشاب لگا ہو، تو اس میں کم رگڑ نے سے بھی صفائی اور پاکی ہوجاتی ہے ،اس میں مضائقہ نہیں،
لیکن واشنگ مشین میں اگر ناپاک کپڑے ڈالے جائیں تو اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ وہ ناپاکی پانی میں پھیل کر پوری واشنگ مشین کو ہی ناپاک کردے۔یا پھر مشین میں بہت زیادہ پانی ڈالنا ہوگا اور کئی مرتبہ کپڑے دھونے کے پورے ڈرم کو بھر کر پھرخالی کرنا ہوگا ،تب جاکر پاک ہونے کی اُمید ہوگی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ کپڑے کو ہاتھوں سے پہلے پاک کریں پھر مزید صفائی کے لئے واشنگ مشین میں ڈالیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا اپنے بچے کا نام صرف محمد رکھنا صحیح ہے؟ کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
جنید احمد بٹ۔ڈوڈہ
’’محمد‘‘ نام رکھائے تو احتیاط لازم

جواب: اپنے بچے کا نام صرف محمد رکھنا بالکل درست ہے بلکہ بہت پسندیدہ ہے۔اس لئے کہ حضرت نبی علیہ السلام نے ’’محمد‘‘نام رکھنے کی ترغیب و تحسین فرمائی ہے۔اسی لئے امت مسلمہ میں سب سے زیادہ یہی نام رکھا جاتا ہے۔خصوصاً خیر القرون میں اسمائےالرجال کی کتابوں میں محمد نام کے افراد تو حدِ شمار سے بھی زیادہ ہیں۔حتیٰ کہ محمد بن محمد بن محمد مسلسل کئی کئی پشتوں تک رکھنے کا ثبوت بھی ہےاور ایسا بھی پایا گیا کہ کسی نے اپنے ہر بچے کا نام محمد رکھا ،پھر فرق کرنے کے لئے اول، ثانی،ثالث اور رابع جوڑا۔بہرحال محمد نام رکھنا بہت بہتر ہے،مگر پھر اس نام کا احترام کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسے شخص کوبُرا بھلا کہنے سے زیادہ پرہیز کیا جائے ۔مثلاًکسی کا نام محمد ہے او راُس سے کوئی شخص بدکلامی کرتے ہوئے اگر یوں کہے ،او محمد تو خراب ہے۔اسی وجہ سے حضرت عمر فاروقؓ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اپنے بچوں کا نام محمدنہ رکھیں اور اگر رکھیں تو پھر اس نام کا احترام کریں ،یعنی محمد نام کے بچے کومخاطب کرکے بُرا بھلا کہنے سے بچو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : آج کل آن لائن کا زمانہ ہے ،اب بہت سارے کام آن لائن ہورہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا نکاح آن لائن ہوسکتا ہے؟
عمر احمد ۔نوشہرہ سرینگر
آن لائن نکاح
وکیل کی موجودگی لازمی

جواب : نکاح میں ایجاب و قبول ہوتا ہے ۔یہ ایجاب و قبول دو فرد کرتے ہیں ۔ان دو ایجاب و قبول کرنے والے افراد کا ایک مجلس میں ہونا شرط ہے۔اس لئے اگر ناکح (لڑکا) دوسرے شہر یا ملک میں ہو اور وہ آن لائن قبول کرے تو یہ نکاح درست نہیں ہوگا ۔ہاں یہ اپنی طرف سے کسی شخص کو وکیل بنائے جو نکاح ِکی مجلس میں حاضر ہو اور نکاح پڑھانے والا اُس کو مخاطب بناکر کہے کہ فلاں صاحب کی دختر فلاں صاحبہ کا نکاح اُس لڑکے سے کیا جارہا ہے جو اس نکاح کی تقریب کو خود آن لائن دیکھ رہا ہے اور اُس کی طرف سے آپ بطورِ وکیل مجلس میں موجود ہیں۔اس کے جواب میں وہ وکیل یہ کہے کہ میں نے یہ نکاح اپنے مئوکل فلاں کے لئے قبول کیا۔اس طرح آن لائین نکاح کا یہ طریقہ درست ہے ،یعنی لڑکا مجلس میں اگر موجود نہ ہو تو اُس کی طرف سے اُس کا مقرر کردہ وکیل ہواور وہ لڑکا نکاح کی پوری کاروائی دیکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔آن لائن نکاح کی یہ صورت درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: آج کل شہر و دیہات میں شادیوں کا سیزن جاری ہے۔ ہماری شادی بیاہ کی تقاریب میں جہاں درجنوں بلکہ سینکڑوں خرافات سے کام لیا جاتا ہے وہاں ایک انتہائی سنگین بدعت پٹاخوں کا استعمال ہے۔ شام کو جب دولہا برات لے کر اپنے گھر سے روانہ ہو جاتا ہے تو وہاں پر اور پھر سسرال پہنچ کر پٹاخوں کی ایسی شدید بارش کی جاتی ہے کہ سارا محلہ ہی نہیں بلکہ پورا علاقہ لرز اُٹھتاہے۔ بعض اوقات اس کے علاوہ بچوں، بزرگوں اور عام لوگوں کو پٹاخے سر کرنے سے جو انتہائی شدید کوفت اور پریشانی لاحق ہوجاتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔شرعی طور براہ کرم اس معاملے پر روشنی ڈالیں۔
خورشید احمد راتھر
شادی بیاہ پرپٹاخوں کا استعمال غیرشرعی

جواب:شادیوں میں پٹاخے سر کرنا اُن غیر شرعی اور حرام کاموں میں سے ایک سنگین و مجرمانہ کام ہے جو طرح طرح کی خرابیوں کا مجموعہ ہے اورشادیوں میں شوق اور فخر سے کئے جاتے ہیں ۔یہ غیر مسلم اقوام کی رسوم کی نقالی ہے اور وہی مشابہت ہے جس مشابہت سے مسلمانوں کو اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے جو مسلمان کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے(ابو دائود)۔ اس پٹاخے اُڑانے کے عمل میں مال کو ضائع کرنا بھی شامل ہے جبکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو قیل و قال کثرت سوال اور اضاعت مال سے منع کرتا ہے۔(بخاری و مسلم)
پٹاخے سو سو روپے تک کی قیمت کے بھی بلکہ اس سے زیادہ کے بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کو آگ لگا کر دھماکے کی آواز اور چنگاریاں برساتی ہوئی روشنی نکل کر چند لمحوں میں ختم ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تو یہ سراسر غیر شرعی جگہ اپنا پیسہ اُڑانا ہے اس لئے بھی یہ حرام ہے پھر جب ان پٹاخوںسے ایسا دھماکہ ہوتا ہے جیسے کہیں فائرنگ ہورہی ہوءاس سے چھوٹے بڑے سب سہم جاتے ہیں اور جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ کہیں آس پاس میں شادی ہورہی ہے وہ سب فکر وتشویش اور پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیںاور کسی کو فکر و پریشانی میں ڈالنا بھی حرام ہے۔اس کی وجہ سے کسی کا سکون غارت ہو جائے، کسی کے آرام میں خلل پڑ جائے،کسی کو ذہنی تکلیف ہو جائے تو اس لئے بھی یہ غیر شرعی اور غیراخلاقی ہے۔
یہ صوتی آلودگی (Noise Pollution)کے اسباب میں بھی داخل ہے اس لئے مہذب معاشرے کے خلاف بھی ۔لہٰذا غیر انسانی طرز عمل ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ بری بات کی اونچی آواز کوناپسند کرتا ہے۔یہ عقل اور حقیقت پسندی کے بھی خلاف ہے۔ آخر اس میں کیا معقولیت ہے کہ دولہے کے رخصت ہونے پر دھماکے کئے جائیں اور آتش بازیاں اور وہ بھی اس طرح کہ پورا علاقہ لرز جائے تو اس کا نفع کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو کام دین، اخلاق، عقل اور عام تہذیب انسانی کے خلاف ہے وہ کیسے درست ہوسکتا ہے لہٰذا پٹاخوں اور بنگولوں کا یہ سلسلہ بند کرنا شریعت کا حکم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔