کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

طلاق کے مسائل
سوال:گذارش یہ ہے کہ طلاق کے بعد مطلقہ خاتون کے کیا حقوق ہیں،کیا طلاق دینے والے لڑکے کو یہ حق ہے کہ وہ پینلٹی(Penelty) کا مطالبہ کرے اور ایک بڑی رقم کا تقاضا کرسکتا ہے۔ اگر طلاق کے بعد برادری والوں نے فیصلہ کیا ہو کہ لڑکے کو مہر اور نفقہ کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور جرمانہ لازم کی ہو تو کیا یہ فیصلہ شرعی طور پر صحیح ہے۔
آزاد احمد …بانڈی پورہ
جواب:طلاق کے بعد مہر(اگر باقی ہو)نفقہ عدت اور منکوحہ کو دیئے گئے تحائف، زیورات جو بھی شوہر یا اُس کے احباب و اعزہ نے دیئے ہوں، وہ سب اس مطلقہ کے شرعی حق ہیں نیز اُس عورت کو اس کے والدین نے جو تحائف دیئے ہوں، وہ بھی اسی کا حق ہے اس کے علاوہ جرمانہ کے طور پر کوئی بھی رقم نہ اسلام نے لازم کی ہے نہ رقم لازم کرنا کسی بھی فرد کے لئے جائز ہے۔
اور اگر برادری کے فیصلے میں کوئی رقم بطورPenelty لازم کی گئی ہے تو وہ فیصلہ غیرشرعی ہے اس لئے طلاق دینے والے کو یہ رقم دینا لازم نہیں اور مطلقہ کو یہ رقم لینا جائز نہیں ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں برادری کے حضرات نے ایک فیصلہ میں ایک شخص پر سو بکریاں بطور جرمانہ لازم کی تھیں۔ جب یہ معاملہ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تو آپ نے وہ فیصلہ مسترد کر دیا اور فرمایا میں وہ فیصلہ کروں گا جس میں اللہ کی رضا ہوگی اور اپنے فیصلے میں کوئی مالی جرمانہ لازم نہ کیا۔یہ واقعہ حدیث کی کتابوں مثلاً بخاری کتاب الحدود میں موجود ہے۔
اس لئے مالی جرمانہ لازم کرنا بھی درست نہیں اور مالی جرمانہ دینا کوئی شرعی حکم بھی نہیں اور جرمانہ کے نام پر کوئی رقم لینا بھی درست نہیں۔ اگر رقم لی گئی تو وہ حلال بھی نہیں ہوگی اور واپس کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پختہ دینی فکر کیلئے حصولِ علم کی ضرورت
سوال:-ہم بہت سارے دوست عمومی تعلیم سے وابستہ ہیں او رساتھ ہی دینی علوم کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہماری دینی فکر درست بھی اور پختہ بھی ہو ۔
ند یم احمد — جموں
جواب:-دینی علم دراصل بہت سارے علوم کا مجموعہ ہے اور جب تک باقاعدہ اُن تمام علوم کو کسی مستند ادارے میں حاصل نہ کیا جائے اُس وقت تک مکمل رسوخ واعتماد حاصل نہیں ہوپاتا ۔تاہم دینی فکر کو پختہ کرنے اور اسے تمام طرح کے افراط وتفریط سے محفوظ رکھ کر مضبوط بنانے کے لئے ایسے افراد جو عصری علوم سے وابستہ ہو ، درج ذیل کتابیں یک گونہ ضرور فائدہ ہوں گی ۔
تفسیر میں آسان ترجمہ قرآن اُردو وانگریزی از مولانا محمد تقی عثمانی ۔ پھر تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (اردو انگریزی علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی ، معارف الحدیث (اردو انگریز) از مولانا منظور نعمانی ۔ الادب المفرد از امام بخاریؒ،ریاض الصالحین (اردو وانگریزی ) از امام نوریؒ۔ محاضرات حدیث از ڈاکٹر محمود احمد ۔عقائد میں عقیدۃ الطحاویؒ اور عقائداسلام از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ۔
سیرت طیبہ میں سیرت النبی ؐاز علامہ شبلی ؒ وعلامہ سید سلمان ندوی اور الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن نیز رحمتہ اللعالمینؐ۔ تاریخ اسلا م میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اور تاریخ ملت حیات الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی ۔
مواعظ میں ، اصلاحی خطبات ، خطبات فقیر، خطباب حکیم الاسلام ، مواعظ فقیہ الامت نیز پیر ذوالفقار احمد کی تمام کتابیں ۔
متفرقات میں اختلافات امت اور صراط مستقیم ، سنت نبوی اور جدید سائنس ، مغربی میڈیا ، جہانِ دیدہ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ۔ ثبوت حاضرہیں ۔
فتاویٰ محمودیہ اور مولانا محمد رفعت قاسمی کی تمام کتابیں۔ان کے بعد کسی مستند عالم سے رہنمائی لی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر رکھنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس گوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل … سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔
اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا ، یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروں گا۔ یا جانور قربان کروں گا ۔ یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائے گا ۔تواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارے کاساراغرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔
نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔
مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے نہیں بھی لازم نہ کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس، بانڈی پورہ ، کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
ایک سائیل
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب:- افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیص جو رانوں تک ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔
ہاتھوں پر کڑا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے ایسے دور رہناضروری ہے جیسے کسی زہریلی چیز سے انسان دور رہتاہے ۔ زہرجان کے لئے خطرہ ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضاب کا استعمال اور ادائیگیٔ سنت
سوال :- داڑھی او رسر کے بال سفید ہونے کی صورت میں اگر کوئی شخص سفید بال چھپانے اور زینت کی غرض سے بازار میں ملنے والے لال رنگ کا استعمال کرے ۔ کیا یہ جائز ہے اورکیا اس پر مہندی کے خضاب کی سنت کا ثواب ملے گا ؟
حافظ رفیق احمد وانی …قاضی پورہ
جواب:-مردوں کے لئے سر اور داڑھی کے سفید بالوں میں مہندی کا خضاب لگانا بلاشبہ سنت ہے ۔ اگر کسی شخص نے مہندی کے بجائے لال رنگ یا مہندی جیسا رنگ بطورخضاب استعمال کیا تو یہ بھی جائز ہے لیکن کیا اس سے سنت کی ادائیگی ہوجائے گی ، یہ یقینی نہیں ہے ۔ایک حدیث میں زعفران کا رنگ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
ملاحظہ ہو داڑھی اور انبیاء کی سنتیں ۔