کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیر احمد قاسمی

فیشن کیلئےکُتے پالنا حرام اوراس پر آنے والے خرچ اور وقت کیلئے اللہ کے حضور حساب طلب ہوگا
سوال :-کُتّوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کتنے مسائل پیدا ہورہے ہیں ،یہ آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے چند سوالات ہیں ۔
کتوں کے متعلق اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ۔ ماڈرن سوسائٹی میں فیشن کے طور پر کتّے پالنے کا رواج روز افزوں ہے۔اس کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے ؟کتّے کا جھوٹا اسلام کی نظر میں کیا ہے ؟کچھ حضرات اصحابِ کہف کے کتّے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کتّے رکھنے میںکیا حرج ہے؟ یہ استدلال کس حد تک صحیح ہے ۔ اس سلسلے میں ایک جامع جواب مطلوب ہے ۔
جاوید احمد…سرینگر
جواب:ایمان کی کمزوری ، مقصدحیات سے لاعلمی ، آنکھیں بند کرکے گمراہ قوموں کی نقالی اور سراسر بے فائدہ کاموں میں شوق اور فخر کے ساتھ پھنس جانا اور پھراُس پر خوشی محسوس کرنا ۔ اس صورتحال کا ٹھیک مشاہدہ کرنا ہو تو مارڈنٹی کے خبط میں مبتلا ہوئے اُن مسلمانوں کا حال دیکھئے جو کتّے پالنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اوقات ، اپنی رقمیں کس شوق سے کتّوں پرلُٹا رہے ہیں ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کیا ہم تم کو اُن سراسر بے فائدہ بلکہ خُسران والے کاموں کی تفصیل بتا دیں جن کاموں میں پھنسے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت عمدہ اور بہترین کام کررہے ہیں۔(الکہف) ۔
کتوں کے ان خدمت گذاروں کا شوق ، فخر اور اپنے جھوٹے تفوق کو دیکھئے اور اوپر کی آیت کا اُن پر منطبق ہونے کا مشاہدہ کیجئے ۔قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جن لوگوں کو آخرت پر ایمان نہیں(اس لئے اپنے شوق اپنی عادت اور اپنی سرگرمیوں میں ان کے پاس آخرت کے لئے کسی تیاری کا کوئی خانہ ہی نہیں ہے۔)۔اُن کے بے فائدہ کام اُن کے لئے ہم مزیدار بنا دیتے ہیں ۔ (النمل)
نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کا جنون رکھنے والے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں جس شوق او رفخر کے ساتھ کتّوں کی خدمت میں لگے ہوئے اُن کے حالات دیکھ کر اور سُن کر بے اختیار اوپر کی آیات سامنے آتی ہیں جس کام کا نہ دینی فائدہ ، نہ دینوی ، نہ جسمانی فائدہ ، نہ عقلی ، نہ گھریلو فائدہ ، نہ سماجی ، نہ کوئی انسانی فائدہ ہے ، نہ حیوانی اُس کام میں اپنا وقت اپنی محنت ، اپنی دولت لٹانا اور پھریہ سمجھنا ہم نے کچھ کیا یا ہم بھی کچھ ہیں ۔ یہ وہی اوپر کی آیات کا نقشہ ہے جو مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتاہے ۔
کتّوں کے نام بینک بیلنس رکھنا ، اُن کی شادیاں کرانا ، ویب سائٹوں کے ذریعے رشتے طے کرنا پھر شادیوں میں ان کو دلہا دُلہن بناکر لاکھوں ڈالر خرچ کرنا ، کتوں کی مارننگ وایوننگ واک کرانے کی لازمی ڈیوٹی انجام دینا ، کتوں کو گھمانے اور سیر وتفریح کے لئے صبح وشام ہزاروں روپے خرچ کرنا ، کتوں کے کلینک کھولنا پھر ان کے علاج معالجے کی فکر اپنے والدین اور بچوں سے زیادہ کرنا اور پھر کتوں کے متعلق بڑے بڑے سٹور ،اُن کے کھانے پینے کے لے قسم قسم کی مصنوعات یہ سب وہ تماشے ہیں جو یورپ میں عام ہیں جہاں اپنی بوڑھی ماں کو دن میں پانچ منٹ دینے کے لئے بیٹا تیار نہیں ہے مگر اپنے کتّے کو چار گھنٹے دینے پر خوش ہے ۔
کتّوں کو پالنے کا شوق رکھنے والے ان سچی حقیقتوں پر غور کریں ۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جو کسی کشمیری نژاد کو برطانیہ میں کرنا پڑتاہے کہ وہ صبح وشام اپنے کتوں کو سیر کرانے لے جاتاہے اور ہاتھوں میں ٹشو پیشر بھی لینا پڑتاہے تاکہ اگر راستے میں اس کے کتّے نے غلاظت کردی تو وہ اپنے ہاتھ سے اُٹھاکر کوڑے دان تک پہنچائے ورنہ جرمانہ دینا ہوگا ۔
کتوں کے متعلق اسلام کیا کہتاہے ۔ چند حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔
بخاری شریف ، مسلم ،ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے (شوق نہ کہ ضرورت) کی وجہ سے کتّا پالا اُس کے عمل میں سے ہر روز دو قیراط اجر ختم کردیا جاتاہے ۔
مسلم میں حدیث ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس گھر کے لوگ ضرورت کے بغیر کتّا رکھیں اُن سب کے اجر وثواب میں ہر روز دو قیراط کم کرایا جاتاہے ۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ جو قوم کتّا رکھتی ہے اُن کے ثواب میں سے ہر روز دوقراط ختم کردئے جاتے ہیں ۔قوم سے مُراد پورا خاندان اور ضرورت کی بناء پر کتّاپالنے کا مطلب ہے شکار کی غرض سے یا کھیتی یا مکان یا مویشیوں کی حفاظت کیلئے جیسے بکروال لوگ وغیرہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورصلعم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھ سے ایک خاص وقت آنے کا ارادہ کیا تھا۔جب وہ اُس وقت پر نہ آئے تو میں نے سوچا کہ اللہ اور اس کے سارے قاصد وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ پھر جبرئیل ؑ کیوں نہیں آئے ۔ اسی کے بعد میں نے دیکھا کتّے کا بچہ ایک کونے میں چھپا بیٹھاہے ۔ جب وہاں سے اُسے نکال دیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ۔ حضورؐ نے فرمایا میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ وعدہ کے وقت کیوں نہیں آئے تو جواباً کہا کہ جس گھر میں کتا ہوتاہم اس گھر میں نہیں آتے ۔
ایک دوسری حدیث جو بخاری شریف میں ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو تو اس گھر فرشتے نہیں آتے ۔
حضرت مولانا اسمٰعیل شہیدؒ نے ایک شخص کو دیکھاکہ وہ کئی کتّے پالے ہوئے ہے تواُن سے برداشت نہ ہوا کہ ایک مسلمان اس غیرشرعی کام میں عمر ضائع کرے ۔ اس سے وہ بولے جس گھر میں کتاہوتاہے اس میں فرشتے نہیں آتے ۔ اُس شخص سے اس برے کام کو درست کرنے کے لئے کہا تو وہ شخص جواباً بولا اس لئے رکھے ہیں تاکہ حضرت ملک الموت بھی نہ آئیں ۔ جب وہ بھی نہیں آسکیں گے تو میری موت بھی نہ آئے گی ۔ حاضر جوابی کا بہت عمدہ مظاہر کرتے ہوئے مولانا شہیدؒ نے فرمایا تمہاری روح قبض کرنے وہی فرشتے آئیں گے جو کتّوں کی روح قبض کرتے ہیں ۔(الفرقان جولائی 2011ء )
بخاری میں ہے :حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس برتن میں کتامنہ ڈالے اُس کو سات مرتبہ صاف کرو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اُس برتن کو آٹھ مرتبہ دھوئو اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھ لو۔اس لئے یہ بات طے ہے کہ کتّے کا لعاب نجس بھی ہے اور طرح طرح کے جراثیم سے آلودہ بھی ۔اصحاب کہف کے کتّے سے استدلال کرکے کتے پالنے کے شوق کو درست قرار دینے کی کوشش اسلام سے ناواقفی بھی ہے او رایک حرام کام کو حلال بنانے کی تحریف بھی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے شراب بھی مائع (Liqued)ہے او رپانی بھی۔ قرآن میں پانی کو ماء طہوراکہاہے لہٰذا شراب بھی پاک اور حلال ہے ۔
اصحاب کہف کا کتّا خودبخوداُن پاک نفوس جوانوں کے پیچھے چلتا گیا اور اس غار کے دہانے پر جاکر بیٹھ گیا جس غارکے اندر اصحاب کہف چھپ گئے تھے ۔اس سے کیسے ثابت ہوگاکہ شوق اور کافروں کی نقالی کے لئے پالیں ۔ حسرت اُس مسلمان پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نظر انداز کرکے کہف کا حوالہ دے ۔
کتّوں کے متعلق اسلامی قانون وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا نہ کہ اصحاب کہف کے کتّے سے کئے جانے والا باطل استدلال۔لہٰذا فیشن کی بنیاد پر کتّاپالنا حرام ہے ۔ اس کا جھوٹا نجس ہے ۔ اس پر خرچ ہونے والا روپیہ حرام پر خرچ کرناہے اور اُس پر صرف ہونے والا وقت ضاع عمر ہے اور اس کا بھی قیامت میں حساب دینا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کی زیب وزینت اہم وضاحتیں
سوال:۱-آج کل کشمیر میں بیشتر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بنائو سنگھار کرکے گھرسے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں وشادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتاہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بنائو سنگھار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتاہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لئے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
شبیر احمد …بتہ مالو ، سرینگر
جواب:۱-اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرحال میںبنائو سنگھارکاشوق رکھتی ہیںاور یہ مزاج اور شوق دراصل ایک اہم مقصد کے لئے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ،ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بلکہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کااہتمام کریں گے ۔ اس لئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پوراکرے مگر ا س طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بنائو سنگھار(مگر شریعت کے دائرے میں)کرکے شوہرکوخوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہروقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لئے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لئے معطر و پُرکشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لئے یہ سب باعث اجر وثواب ہوگا ۔
لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لئے بنائو سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگرغیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عو رتوں میں اپنی عزت وبرتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر وبرتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔ عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ،اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر وہ ایسا بنائو سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر آمادہ ہوجائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔کیونکہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بنائو سنگھار مت کرو)۔ اس میںایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کوجاہلانہ کہاہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لئے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کوجاہلانہ روش قرار دیاہے ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے اچھا لباس ،اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ،بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیرمردوں کا سامنا ہو ایسا بنائو سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہوجائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-کیا مسجد شریف میں مطالعہ قرآن کے دوران موبائل فون پر بات کرنا جائز ہے ؟
حسرت کشتواڑی
مساجد میں فون پر گفتگو
جواب:۱-مسجد میں دنیوی باتیں کرنا ممنوع ہے لیکن وہ مختصر بات جس میں صرف ہاں اور ناں کی حد تک بات کرنی پڑے اُس کی اجازت ہے ۔اسی طرح ضرورت کی وہ بات جس کی سخت مجبوری ہواُس کی بھی اجازت ہے ۔اب اگر کوئی شخص مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت یا مطالعہ میں مشغول ہے تو ضرورت اور مجبوری کی بات چیت وہ فون پر بھی کرسکتاہے لیکن غیر ضروری اور بے فائدہ یا تفریحی گفتگو کرتے رہنا یقیناً مسجد میں مکروہ ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید وفروخت اور شعرخوانی سے بھی منع فرمایا ہے ۔(ترمذی)