چشم ہوئی نمناک اور نہ زباں شکوہ سنج تجلیات ادراک

ڈاکٹر عریف جامعی

دو حساس طبیعت طالب علم مشہور عالم، حسن البصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استفسار کیا کہ ’’یہ (اموی) حکمران ہم پر ظلم ڈھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔‘‘ حسن البصری نے جواب دیا کہ ’’خدا کے یہ دشمن نرا جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ مختصر سے اس تاریخی واقعے اور چھوٹے سے اس سوال و جواب میں ’’جبر و قدر‘‘ کا ایک بہت گہرا دفتر چھپا ہوا ہے۔ دراصل فلسفہ جبر میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ انسان مجبور محض ہے جو اپنی حالت سدھار سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ فلسفہ اسلام کے مزاج، جس میں ہر انسان خود اپنے اعمال کے لئے ذمہ دار ہے، سے میل نہیں کھاتا۔ تاہم تاریخ میں سیاسی طالع آزماؤں اور مستبد حکمرانوں نے اس فلسفے کو اپنی ملک گیری، سیاسی جبر، استبداد اور ظلم کو برقرار رکھنے کے لئے خوب استعمال کیا ہے۔ بات صحیح ہے کہ ظلم و جبر سے انسان کا دم ضرور گھٹتا رہا، لیکن کبھی مظلوم کی آہ و فغاں ظالم کو لے ڈوبی تو کبھی بے بس کی چشم نمناک نے ظلم کے بیابانوں میں استوار غرور کے محلات کو اس طرح بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ،جس طرح سیلاب کا ریلا خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے۔ لیکن اکثف اوقات میں انسان نے اپنے ’’غبار خاطر‘‘کو قلم و قرطاس کے حوالے کرکے ادب، اخلاق اور فلسفہ کی دنیا کو سیراب کیا۔

دنیائے سیاست بھی بڑی عجیب دنیا ہے! اس دنیا کے مہم جو افراد نے اپنے لحاظ سے ہمیشہ اپنی حکمرانی کو طول بخشنا چاہا، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ اسی ’’تمنائے مختصر‘‘کو پانے کی تگ و دو کے دوران ادب، فلسفہ، تصوف، تاریخ، اخلاق اور سائنس کی دنیا بھی آباد ہوتی رہی۔ عمومی طور پر تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ امن و امان اور خوشحالی کے ماحول میں ہی علم و اخلاق کی دنیا سجتی رہتی۔ اگرچہ ایسا ہوتا بھی رہا کہ پر سکون ماحول میں تعلیم و تحقیق کا چمن خوب پھلا پھولا، لیکن ستم رسیدہ انسان نے اپنی بے بسی کے عالم میں بھی دنیا کو وہ کچھ عطا کیا جس کا تصور مسرور اور محفوظ انسان کر ہی نہیں سکتا۔

سقراط سے بات شروع کریں تو ’’مکالمات افلاطون‘‘ (جن کا اردو ترجمہ سید عابد حسین نے کیا ہے) سے پتہ چلتا ہے کہ فلسفے کے اس باوا آدم کو اس لئے زہر کا جام نوش کرنا پڑا کہ  اتھنز کے حکمران بظاہر یہ بات ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ اس نے نوجوانوں کو گمراہ کیا، مروجہ دیوتاؤں کو ماننے سے انکار کیا اور ایک ایسے (نئے) خدا کا تصور پیش کیا جس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ حقیقت کی یافت کے بعد حقیقت سے دستبردار ہونا سب سے بڑی بزدلی اور مداہنت کی انتہا ہے، جو بہرحال انسانی شرف کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط نے اپنی جان دیکر حقیقی متلاشئ حق ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

ظاہر ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں مختلف افتاد طبع کے حامل افراد نے مختلف انداز میں حقیقت کو جاننے کی کوشش کی اور پھر اس راہ پر اس طرح ڈٹ گئے کہ ظلم و ستم کی انتہائیں بھی ان کو اس راہ سے ہٹا نہ سکیں۔ اس سلسلے میں قرآن نے مختلف پیرایوں میں راہ حق کے ان مسافروں کی روداد کو پیش کیا ہے۔ فرعون (موسیٰ کے ہمعصر یعنی رعمسس دوم) نے جب موسیٰ  ؑ کی دعوت حق کا توڑ کرنے کے لئے مصر کے ماہر ساحروں کی خدمات حاصل کیں تو بجائے اس کے کہ وہ حق کو ہرا سکتا، اس کی ساری کاروائی الٹی اس کے گلے پڑگئی۔ تاہم جب جادو گروں نے حق کو پہچان لیا تو ہر طرح کا ظلم و ستم، جس میں مختلف سمتوں میں ان کے ہاتھ پاؤں کاٹنا شامل تھا، سہہ تو لیا، لیکن حق سے منہ پھیرنا گوارا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برسر دربار فرعون کے سامنے ببانگ دہل اعلان کیا: ’’انہوں نے جواب دیا کہ ہم مر کر اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے۔‘‘ (الاعراف، ۱۲۵)

اسی سلسلے میں قرآن نے انسانی تاریخ میں سے کئی ایک ایمان افروز واقعات کو محفوظ کرکے راہ حق کے مسافروں کے لئے تابندہ مثالیں پیش کی پیں۔ ایک مرد مومن کی روداد ایمان صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے قرآن نے واضح کیا ہے کہ انسان کو اپنا شرف انسانیت قائم و دائم رکھنے کے لئے کس پامردی کا ثبوت دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ شاہراہ ایمان پر قدم رکھنا کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہوتا۔ اس راہ پر استقامت اور دوام کے لئے معاندین حق کو زیر کرنے کے لئے عقلی بنیادوں پر استدلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذکورہ مرد مومن ایمان و یقین کا راستہ چن کر اپنی قوم کے سامنے بڑے ہی دلنشین انداز میں ایمان کی توضیح و تشریح کرتے ہیں اور ہر ممکن عقلی تدبیر سے قوم کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح ایمان باللہ میں ہی دائمی نجات پوشیدہ ہے۔ قرآن نے قوم کے ساتھ اس مرد مومن کے مکالمے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے: ’’اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلارہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلارہے ہو۔‘‘ (المومن، ۴۰، ۴۱) صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بندہ خدا کے دل میں اپنے تفوق کے بجائے فقط خدا کی بڑائی اور کبریائی موجزن ہے۔ اپنے اسی عجز و انکسار اور رب تعالی کی عظمت کو وہ نہایت ہی ملائم اور لطیف آواز دیکر قوم کے گوش گزار کرتے ہیں۔ تاہم تمام تر خیرخواہی کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنے اس اعلان حق کے لئے سب سے بڑی چیز یعنی جان کی قیمت پیش کرنا پڑتی ہے۔ اس موڑ پر بھی وہ صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور درد بھرے انداز میں قوم مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’(اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا: کاش میری قوم کو بھی علم ہوجاتا۔‘‘ (یس، ۲۶)

ایمان و ایقان کی اس دفتر تاریخ کے اوراق جہاں ’’پامردئ مومناں‘‘ اور ’’ہمت مرداں‘‘ سے روشن ہوئے، وہیں خواتین نے بھی اس جہد مسلسل میں بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس سلسلے میں ہم مریم  ؑ، جنہیں قرآن نے صدیقہ کا لقب دیا ہے، کی پاکیزگئ اخلاق کے ساتھ ساتھ قوم کی طعن و تشنیع کے سامنے ان کا استقامت کی دیوار بنکر کھڑا ہونا بھی دیکھتے ہیں۔ قرآن نے آپؑ کو دنیا بھر کی خواتین کے لئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ کہ اس الہٰی سند نے مریم علیہ السلام کی عفت و عصمت اور بلندئ اخلاق کو جغرافیائی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی حدود و قیود سے ماوراء قبول عام عطا کیا۔ اسی انداز کی تاریخ آسیہؑ، امراۃ فرعون، نے بھی رقم کی، جب آپؑ نے فرعون جیسے مستبد حکمران کے عقد میں ہونے کے باوجود اس کے ظلم و جور اور حق اور اہل حق کے سامنے استکبار کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ قرآن نے نہایت ہی بلیغ انداز میں آپ کے آخرت کے گھر کو فرعون کے گھر پر ترجیح دینے اور آپ کے فرعون کی کارگزایوں سے برات کے اعلان کو بیان کیا ہے: ’’جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے۔‘‘ (التحریم، ۱۱)

رومانیت (ہیلنزم) کے عالمی غلبے کے دوران جب سیدنا مسیح  علیہ السلام کے متبعین نے توحید کا علم لیکر شرک کے خلاف اعلان برات کیا، تو انہیں اعصاب شکن اور ہمت شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں اگرچہ اکثر مبلغین حق کو شرک کے حامیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، لیکن تاریخ میں محفوظ واقعات میں سے اصحاب کہف کی عزیمت کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ راہ حق کے ان مسافروں کو عالمی تاریخ اور ادب میں ’’سیون سلیپرس ‘‘کا نام دیا گیا۔ دراصل ایمان کی حفاظت کے لئے اصحاب کہف نے جس جانفشانی لیکن ہوشیاری سے کام کیا، اس کو الہی نصرت ملنا یقینی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جب راہ ہدایت کو چنا تو رب تعالی نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ اس بات کا اندازہ قرآن کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے: ’’ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے تھے جب وہ راہ حق پر کھڑے ہوئے ۔‘‘(الکہف، ۱۴) چونکہ اللہ تعالی نے انہیں غار میں سلاکر زمان و مکان کے تصور سے ماوراء کیا تھا، اس لئے جب وہ جاگے تو انہیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوئی وہ ایمان کو بنائے رکھنے کی فکر تھی، کیونکہ ایمان کا تعلق اس ہستی کے ساتھ ہے جو زمان و مکان سے وراء الوراء ہے۔ اس لئے جب انہوں نے جاگ کر کھانے کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو اس سلسلے میں محتاط رہنے کی تلقین کی، کیونکہ متاع ایمان کی حفاظت کے لئے ہی انہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ قرآن نے ان کی اس احتیاط کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’اگر یہ کافر تم پر غلبہ پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں پھر اپنے دین میں لوٹالیں گے۔‘‘(الکہف، ۲۰)

ایمان کی متاع گرانقدر کو محفوظ رکھنے کے لئے اہل حق کو ہمیشہ رونگٹے کھڑا کرنے والی سختیاں جھیلنا پڑی ہیں۔ ظاہر ہے کہ شائقین الحاد ان قربانیوں کے پیچھے کارفرما جوہر کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر تھے اور قاصر رہیں گے، کیونکہ کفر کی دلدادہ شخصیات مادیات کی عینک اتار کر کسی اعلی حقیقت کو بھانپتے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ راہ ایمان میں سربکف ہونے والے لوگوں کو اکثر تضحیک اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس لئے ’’اصحاب اخدود (گھڑے کھودنے والوں)‘‘ کے تشدد کا شکار ہونے والے سرفروشوں کے صبر و ثبات اور عزیمت کا بھی اگر ’’جدید انسان‘‘ مذاق اڑائے تو کسی حیرت کی بات نہیں۔ قرآن نے ان اہل ایمان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا کچھ اس طرح سے ذکر کیا ہے: ’’جب کہ وہ لوگ ان (آگ کے خندقوں) کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اور ایمان والوں کے ساتھ جو (مظالم) کررہے تھے، اس پر خود شاہد تھے۔‘‘ (البروج، ۶۔۷) تاہم جب اسی انداز میں کسی زمانے میں لوگوں نے راہ حق کے علمبرداروں کا ساتھ دینے کا عزم اور اعلان کیا، تو انہیں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور ان کا بھی مضحکہ اڑایا گیا۔ قرآن نے اہل حق کے تئیں اہل باطل کے اس رویے پر اس طرح روشنی ڈالی ہے: ’’جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وہ بھی جن کے دل میں روگ تھا کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ (الانفال، ۴۹)

حریت فکرونظر کی بنیاد دلیل پر رکھنے اور اسے سند کا سہارا بخشنے والی اس روشن روایت کو کئی بار روشن خیال تصور کیے جانے والے لوگوں نے تاریک کیا۔ وسیع القلبی کے زعم باطل میں اسیر ان حکمرانوں نے علم کی برہان اور ایمان کی تجلّی سے سرشار اہل عزیمت کا استقبال اذیت کے تازیانوں سے کرنے کی لاحاصل کوشش کی۔ امام احمد ابن حنبل کی داستان عزیمت کو ہم اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام نے عباسی خلفاء، مامون اور معتصم کے ادارہ محنہ (انکیوزشن) کی طرف سے برسنے والے ہر کوڑے کو صرف اس کلمہ حق سے رد کیا کہ: ’’آپ لوگ اس (خلق قرآن) کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل قرآن اور سنت سے پیش کریں!‘‘ کچھ اسی طرح کی عزیمت کا ثبوت امام سرخسی نے دیا جب انہیں حاکم وقت نے ایک کنوے نماں قید میں پابند سلاسل کیا۔ امام کے شاگرد ہر روز اس کنوے کے دہانے پر بیٹھ کر آپ سے اس علم کا املا لیتے جو امام کے سینے میں محفوظ تھا۔ تیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ’’کتاب المبسوط،‘‘ جسے چار کتابوں میں منقسم کیا گیا ہے، حنفی فقہ کی امہات الکتب میں سے ایک کتاب ہے۔ یہ کتاب اسی قیدوبند میں امام کی عزیمت کا زندہ ثبوت ہے۔ امام نے مختلف ابواب کے آخر میں اپنے دردوکرب کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے: ’’یہ واضح ترین مضامین اور مختصر ترین عبارت میں عبادت کی شرح کا آخری حصہ ہے، جسے ایک ایسے شخص نے املا کرایا ہے جو اس طرح قید میں ہے کہ نہ جمعہ میں حاضری دے سکتا ہے، (اور) نہ جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے۔‘‘

(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

رابطہ9858471965

[email protected]