! پھربجلی بحران اور پھر وہی عذرات نہیں

جموںوکشمیر میں بجلی کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے اور اب تو 10سے12گھنٹے کی یومیہ کٹوتی معمول بن چکی ہے جبکہ اب محکمہ بجلی کی جانب سے اس بات کے واضح اشارے دئے جارہے ہیں کہ مستقبل قریب میں بجلی بحران ختم ہو نے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اگر واقف کار حلقوں کا اعتبار کیاجائے تو آنے والے دنوں یہ بحران مزید سنگین ہوجائے گا اورکٹوتی کا دورانیہ مزید بڑھ سکتا ہے ۔بادی النظر میں انتہائی ظالمانہ کٹوتی شیڈول کیلئے حسب دستور محکمہ رسد اور طلب میں واضح خلیج کو وجہ قرار دے رہا ہے اور محکمہ کا کہنا ہے کہ انہیں کشمیر میں 1600میگاواٹ سے زائدبجلی درکار ہے جبکہ دستیاب بجلی صرف 1000سے1200 میگاواٹ ہی ہے اور ڈیمانڈ اور سپلائی میں موجود اس خلیج کو پاٹنے کیلئے کٹوتی ناگزیر بن چکی ہے۔دبے الفاظ میں محکمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی سرماکی شروعات ہورہی ہے اور آنے والے دنوں اور مہینوں میںسردی کی شدت بڑھتی چلی جائے گی اور اس کے نتیجہ میں بجلی کی طلب بھی بڑھتی ہی چلی جائے گی اور یوںیہ بحران بھی بڑھتا ہی چلے گا اور عملی طور ایک طویل عرصہ کیلئے اندھیروں کا راج قائم رہے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرما میں کشمیر میں بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے لیکن کیا محکمہ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسا پہلی دفعہ ہورہا ہے؟۔سردیاں ہر سال آتی ہیں اور ہر سال سردیوں میںبجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے اور اسی لحاظ سے ملکی سطح پر بجلی کی طلب پورا کرنے کیلئے انتظامات بھی کئے جاتے ہیں۔آخر اس سال ایسا کیا ہوا کہ اب موسم سرما آنے سے قبل ہی محکمہ بجلی نے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں جبکہ ابھی اصل سرما یعنی چلہ کلان آنانا باقی ہے ۔اب یہ بھی ایک عذر پیش کیاجارہا ہے کہ تھرمل بجلی پروجیکٹوںکو چلانے کیلئے کوئلہ دستیاب نہیں ہے اور قومی سطح پر کوئلہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے ۔کوئلہ کی قلت کیلئے روس ۔یوکرین جنگ کو ذمہ دار قرار دیاجارہا ہے اور یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت تو کوئلہ خریدتی لیکن جب دستیاب ہی نہیں ہے تو کیا کیاجاسکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں تو یہی لگتا ہے کہ سرکار بھی شاید کوئی پیشگی تیاری نہیں کرپائی ہے اور سارے اسی امید میں جی رہے تھے کہ یہ جنگ جلدی ختم ہوگی اور سپلائی چین متاثر نہیں ہوگی ۔اب جب یہ اندازہ غلط ثابت ہو اتو اب اس کی سزا لوگوں کو دی جارہی ہے حالانکہ لوگ بیچارے بجلی کیلئے باضابطہ فیس ادا کررہے ہیںا ور انہیں مناسب اور معیاری بجلی فراہم کرنا ان کا حق بنتا ہے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر طرز زندگی کی تبدیلی کے سبب بجلی کی ضرورت بدستور بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور یہ بڑھتی ہی رہے گی۔ایسے میں سرکاروں پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقدار میں بجلی دستیاب رکھے ۔ایک زمانہ تھا جب پن بجلی پروجیکٹ ہی بجلی کا واحد ذریعہ تھے ۔پھر تھرمل بجلی پیدا ہونے لگی ۔اُس کے بعد وِنڈ انرجی کا بھی تصور آیا اور سولر انرجی پر زیادہ زور دیاجانا لگا۔گوکہ ہماری سرکار بھی توانائی کے ایسے متبادل ذرائع کے فروغ کیلئے کام کررہی ہے لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ اس سمت میں کوششیں تیز کی جائیں کیونکہ توانائی کے روایتی ذرائع محدود ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان پر انحصار اب نہیں کیاجاسکتا ہے ۔اس صورتحال میں شمسی توانائی سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی وِنڈ انرجی یا تیز ہوائوں کو بھی توانائی میں تبدیل کرنا ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ یہ توانائی کے وہ ذرائع ہیں جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور ان پر عالمی تغیرات کا زیادہ اثر بھی نہیں پڑسکتا ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ بجلی بحران سے سبق لیکرطویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ارباب اقتدار ہنگامی بنیادوںپر توانائی کے متبادل ذرائع کے وسیع استعمال پر کام شروع کریںگے اور قلیل مدتی پالیسی کے تحت فی الوقت صارفین کو راحت پہنچانے کے اقدامات کئے جائیں گے جس کیلئے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے اور اگر واقعی کوئلہ کی ہی کمی ہے تو ہنگامی بنیادوں پر کوئلہ کی دستیابی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔