پسماندہ طبقوں کی طالبات اور مجبوریاں! پُکار

رخسار کاظمی ،پونچھ

ملک کے پسماندہ، غریب، مزدور اور مظلوم طبقہ کے لئے سوائے تعلیم کے کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جو مستقبل کی پریشانیوں اور آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پہلو کا ہم سب کو بہت گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔مارچ 2020 میں جب ملک میں کورونا وائرس نے شدت اختیار کی تو دیگر مقامات کے ساتھ ساتھ اسکول کالج بھی پوری طرح بند کر دئے گئے تھے۔اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ عالمی وباء نے تمام شعبہ زندگی کو بری طرح متاثر کیاتھا۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اس دوران سب سے زیادہ جس شعبہ کو نقصان پہنچا ہے وہ ہے شعبہ ء تعلیم۔جس کا بھگتان سب سے زیادہ طلباء برادری نے ہی کیا ہے۔کیونکہ اس تیز رفتار اور ترقی یافتہ دور میں تقریباً دو یا اس سے بھی زائد عرصہ تک تعلیمی سلسلے کا مکمل طور پر رُک جانا یہ واقعہ ہی ایک بہت بڑا تعلیمی وقفہ ہے۔جبکہ اس کی بھرپائی با آسانی ہوتی ہوئی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔بے شک کرونا سنکٹ میں آن لاین تعلیم کا رواج عام ہوا،جبکہ سرکار نے بذات خود آن لاین تعلیم کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیااور بڑے پیمانے پر اسے بڑھاوا دینے کیلئے مختلف اقدامات کئے۔ جن کی جتنی تعریف کئے بنا نہیں رہا جاسکتا۔مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو آن لاین تعلیم سے ملک کے دور دراز علاقہ جات میں رہنے والے بچوں کو آٹے میں نمک کے برابر تک بھی فائدہ نہیں ہوا،کیونکہ اس ڈیجٹیل دور میں جہاں ہم ایک ڈیجٹیل ٹکنالوجی میں میلوں کا سفر طے کر چکے ہیں لیکن اسی ملک کے سینکڑوں علاقے آج بھی انٹرنیٹ اور برقی سہولیات سے محروم ہیں۔جہاں صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ نٹ ورک تک بھی کام نہیں کرتاہے،ان علاقوں میں آن لائن تعلیم محض ایک خواب تھا جو پورا تو ہوا نہیں بلکہ اس دوارن دیگر مسائل پیدا ہوگئے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ ڈراپ آوٹ کا رہا ہے کیونکہ کرونا سنکٹ میں جب تمام شعبۂ زندگی متاثر ہوئے،لمبے عرصے تک چلنے والے لاک ڈون نے تمام تجارتی سرگرمیوں کو ٹھپ کر دیا تو جوں ہی لاک ڈون کی پابندیاں ہٹائی گئی، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی۔اشیائے خوردنی سے لیکر پٹرول اور ڈیزل تک کے داموں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا،جس سے گاڑیوں کا کرایا دوگنا ہوگیا۔ اس دوارن حکومت نے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لئے مختلف احتیاطی تدابیر لاگو کیں۔ جن میں محکمہ نقل و حمل کی جانب سے گاڑیوں میں سفر پر مسافروں کی تعداد پر بھی مکمل پابندی لگائی یعنی کہ وہ سیٹ جس پر دو سواریاں بیٹھ سکتی ، وہاں ایک سواری بٹھانے کا حکم لاگو ہوا۔اس دوارن ڈرائیور حضرات نے سواریوں سے کرایہ دوگنا لینا شروع کر دیا۔
خیر کرونا کہ پیش نظر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ٹرانسپورٹر حضرات اپنی من مانی کا کرایہ بٹورتے رہے اورلوگوں نے کرونا کہ چلتے اس مسئلے کو نظر انداز کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کرونا کی آخری لہر جو کہ مئی 2021میں عروج پر تھی،کے بعد آج تک کورونا لہر کنٹرول میں ہے۔ اب روز مرہ کیسیز کی تعداد پہلے کے مد مقابل بہت حد تک کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔گویا کہ روز مرہ زندگی معمول پر آچکی ہے، تمام تر تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں ،لیکن با وجود اس کے کہ گاڑیوں کا کرایہ کم کیا جاتا،تا ایں دَم دوگنا کرایہ لیا جا رہا ہے۔ جس کا سیدھا اثر طلباء برادری پر پڑ رہا ہے۔گاڑیوں کے بڑھتے کرائے کی وجہ سے کرونا کے سنکٹ میں بے روزگار ہوئے کئی والدین نے اپنے بچوں کو اسکول جانے سے ہی روک لیا ہے کیونکہ وہ طلباہ جو اعلیٰ تعلیم کی خاطر گاؤں سے شہروں کی طرف جاتے ہیں، انہیں نجی پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اب کرایہ اتنا مہنگاہوگیا ہے کہ غریب طلباء ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
اس کی ایک مثال یوٹی جموں و کشمیر کے تحت سرحدی ضلع پونچھ کے گاؤں بانڈی چیچیاں کی بھی ہے۔ گاؤں قصبہ کی رہنے والی رخسانہ کوثر بتاتی ہیں کہ وہ تین بہنیں اور دو بھائی ہیں اور سب کے سب پڑھ رہے تھے۔مگر کرایہ دوگنا ہونے کے باعث انہیں اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی ہے۔ رخسانہ جو کہ پونچھ ڈگری کالج سے بی اے کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، کا کہنا ہے کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور ہر جماعت میں اچھے نمبرات سے پاس ہوتی رہی۔ مگرمہنگے سفری اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے کالج چھوڑنا پڑا۔وہیں آسیا اور سائمہ (بدلہ ہوا نام) کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کا کرایہ بڑھنے سے انہیںمالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کرونا سے پہلے 20 روپے آنے جانے کا کرایہ ہوتا تھا۔ جو بڑھ کر اب 40 روپے ہو گیا ہے جس کی وجہ سے روز اسکول نہیں جا پاتی ہیں،کیونکہ ان کے والدین اتنا خرچ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ سایمہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے ڈرائیوار سے کہا کہ وہ آدھا کرایہ دے گی تو ڈرائیوار نے سب کے سامنے اس کی تذلیل کرتے ہوئے گاڑی پر چرھنے سے منع کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں اس کے بعد میں مجبوراً آدھے راستے کا سفر پیدل طے کر کے آدھا سفر گاڑی پر کرتی ہوں تا کہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکوں۔
صاف ظاہر ہے کہ کرونا بیماری پرکافی حد تک قابو پا یا جا چکا ہے مگر محکمہ نقل و حمل عوام کے لئے سفری کرایوںپر قابو نہیں پا سکا ہے۔ ڈرئیوروں کی من مانی اور بد سلوکی سے پریشان حال کئی طلباء و طالبات اس معاملے پر کافی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں، جبکہ طلباء کا اس سلسلہ میں محکمہ نقل و حمل کو یہ کھلا پیغام ہے کہ ٹریفک قوانین کے مطابق طلباء سے نصف کرایہ لینے کے لئے احکامات صادر کئے جائیں تا کہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔ (چرخہ فیچرس)