پانی کی نایابی،خواتین کے لئے بڑی مصیبت! بنیادی ضرورت

بھارتی ڈوگرہ،پونچھ

بلا شبہ زمین پر پانی کی دستیابی کی وجہ سے جانداروں کا وجود ہے۔ اس کے بغیر نہ انسانی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی کسی دوسرے جاندار کا وجود۔ یہ جانداروں کی بنیادی ضرورت ہے، صاف لفظوں میں کہیں توپانی زندگی ہے۔ لیکن جہاں پانی نہ ہو وہاں زندگی کیسی ہو گی؟ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سائنسدانوں سے لے کر ماہرین تک پانی کے مسئلے کے حوالے سے وارننگ دے رہے ہیں۔ مسلسل بتایا جا رہا ہے کہ اگر کسی ٹھوس اور مسلسل منصوبے پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہ کیا گیا تو جلد ہی ملک میں پانی کے لیے مسئلہ کھرا ہو سکتا ہے۔ملک کے کئی ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی دستیابی بہت محدود ہے۔ گاؤں والوں کو یا تو پانی کے واحد ذریعہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے یا پھر انہیں پینے اور دیگر روزمرہ کے کاموں کے لیے پانی تلاش کرنے کے لیے دور تک جانا پڑتا ہے۔ اس طرح کے مسائل صرف میدانی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ پہاڑی ریاستوں کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔
یوٹی جموں کے کٹھوعہ ضلع میں تحصیل بلاور کے گاؤں جوڑنؔ میں پانی کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ گاؤں میں پانی کے لیے صرف ایک کنواں ہے، جوگاؤں والوں کی روزمرہ کی ضروریات کے لیے کم پڑتی ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 20 سے 25 گھر ہیں جن کی کل آبادی 100 کے قریب ہے۔ پورے گاؤں کا انحصار ایک چھوٹے سے کنویں پر ہے۔ حالانکہ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اس کا پانی بھی بالکل صاف و شفاف نہیں ہے۔ لیکن کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہی ناصاف پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن کو گھریلو استعمال کے لیے پانی جمع کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ گاؤں کی ایک خاتون ربینہ بیگم کہتی ہیں کہ گاؤں میں ایک ہی کنواں ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے تمام خواتین اسی کنویں پر اپنے کپڑے بھی دھونے پر مجبور ہیں۔ایک اور خاتون مونی بیگم کا کہنا ہے کہ گاؤں میں واحد کنواں ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اسی کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ جہاں کھانےپینے کی چیزوں میں یہی پانی استعمال کرتے ہیں وہیں دوسرے گھریلوں ضروریات کے لئے بھی اسی کنویں کا پانی کام میں لایا جاتا ہےجبکہ کنویں کے سامنے بیٹھ کر لوگ کپڑے بھی دھوتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کنویں کا پانی مزید گندہ اورآلودہ ہو چکا ہے۔ لیکن کوئی دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے بستی کی آبادی وہی پانی روزمرہ کی کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے میں بھی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اس آلودہ پانی کو دیکھ کر ہی اسے پینے میں زبردست کوفت ہوتی ہےمگرمرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجبوراً پینا پڑتا ہے۔کیونکہ اس کنویں کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ہی نہیں ہے۔ اس گندے ، آلودہ پانی اور مضر صحت پانی کے استعمال سے کئی بار بیماریاں لگنے کا خطرہ لگارہتا ہے۔ لیکن اسکے بعد بھی گاؤں والے بے بس و لاچارہیں۔گائوں والوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور انتظامیہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے کام نہیں لیتے تو عنقریب ہی گاؤں والوں کی صحت کے لئے کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتےہیں،جن کا خمیازہ انہیںانسانی جانوں کے اتلاف کے ساتھ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔مونی بیگم کے مطابق یہ کنواں گرمیوں میں سوکھ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جنہیں پانی کے لیے 2 کلومیٹر دور پنجتیرتھی جانا پڑتا ہے،جوکہ دشوار کُن کام ہوتا ہے، گرمیوں میں روزانہ دو بار اتنی دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے جہاں خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں لڑکیوں کو بھی اسکولی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے۔بقول اس کے ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، جنہیں گھر میں اکیلا چھوڑ کر بھی پانی کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر مرد دن کے وقت اپنے کام پرچلے جاتے ہیں۔ ایسے میں کبھی ان بچوں کو اپنے ساتھ لے جانا، تو کبھی گھر میں اکیلا چھوڑ نا تشویش کُن مرحلہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں گاؤں جوڑن کے سماجی کارکن کاکو دین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانی کے مسئلے پر متعدد ویڈیوز بنا کر یوٹیوب اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈال دی ہے تاکہ انتظامیہ یا متعلقہ محکمہ اس مسئلے کو حل کر ے۔ لیکن آج تک اس مسئلہ کا کوئی حل سامنے نہیں آیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی بے حسی کے باعث اس گاؤں کے لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔گاؤں جوڑن کے پنچ محمد گنی کا کہنا ہے کہ یہاں پانی کی پائپ لائن تک نہیں بچھائی گئی تو محکمہ جل شکتی کا پانی کہاں سے آئے گا؟وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کئی بار جے ای ای سے اپیل کی گئی، وہ ہر بار یہی یقین دہانی کرتے چلے آرہے ہیں کہ جلد ہی گاؤں جوڑن میں پانی کی پائپ لائن بچھائی جائے گی، لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ بیک ٹو ولیج پروگرام کے دوران بھی ہم نے اس مسئلہ کو عہدیداروں کے سامنے سنجیدگی سے اٹھایا ہے لیکن انتظامی بے حسی کی وجہ سے آج تک اس گاؤں میں پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ محمد غنی کا کہنا ہے کہ پنچ ہونے کے ناطے میں نے گاؤں کی ترقی سے متعلق منصوبوں اور میٹنگوں میں بھی گاؤں میں پانی کے کنکشن کا مسئلہ رکھا ،لیکن آج تک اس منصوبے کو منظوری نہیں دی گئی۔ اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر اس گاؤں میں پانی کا مسئلہ جلد حل نہ کیا گیا تو آنے والے موسم گرما میں گاؤں والوں کو پانی کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مرکزی حکومت کی وزارت جل شکتی کی ویب سائٹ کے مطابق، سال 2024 تک ملک کے ہر دیہی گھر میں نلکے کے ذریعے مناسب اور باقاعدہ صاف پانی کی فراہمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق، اب تک (فروری 2023 تک) ملک میں کل 19,39,40,804 گھروں کو نل کا پانی فراہم کیا جا چکا ہے۔ اسکیم کے آغاز کے بعد سے، یہ ہدف 49 فیصد سے زیادہ گھرانوں میں حاصل کیا جا چکا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 56.97 فیصد گھروں کو نل کنکشن سے جوڑا گیا ہے۔ حکومت کے اس اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہداف بروقت حاصل کر لیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاؤں جوڑن ؔمیں یہ اسکیم کب تک پہنچے گی؟ کیا منصوبہ آنے تک انتظامیہ اور متعلقہ محکمے کے پاس کوئی متبادل انتظام نہیں ہے، تاکہ گاؤں والے آلودہ پانی پینے پر مجبور نہ ہوں اور گرمیوں میں انہیں پیاسا نہ رہنا پڑے؟ (چرخہ فیچر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔