نیلوفر ناز نحوی کی کتاب | ’’اچھی کہانیاں اچھے بچوںکیلئے ‘‘ پرتبصرہ تبصرہ

کتاب کا نام :۔ اچھی کہانیاں،اچھے بچوں کیلئے
مترجم :۔ ڈاکٹر نیلوفر نازنحوی قادری
اصل :۔ قصہّ ہائی خوب برائے بچہ ہائی خوب
( فارسی، از مہدی آذر یزدی)
صفحات :۔ ۱۱۲
اشاعت :۔ ۲۰۲۱؁ء
قیمت :۔ ۲۸۰ روپئے
مطبو عہ :۔ الحیات پرنٹوگرافرس مدینہ چو ک گا ئو کدل سرینگر کشمیر
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔جیسے قوم کے بچے ہوں گے ویسے ہی اس قوم کی تقدیر ہوگی۔اُن کی ذہنی،جسمانی، روحانی اور اخلاقی تربیت و پرورش کرنابڑوں اور بزرگوں کی لازمی ذمہ داری ہے۔اس مقصد کے لئے مختلف طریقہ کار اختیارکئے جاسکتے ہیں۔پہلے زمانے میںاطفال کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں قصّے کہا نیوں کا بڑا عمل دخل رہاہے۔ان کہانیوں میں فوق فطری عناصر بھی پائے جاتے تھے۔پرندوں اور جانوروں کی ناقابلِ یقین حکایات بھی ہوتی تھیں ۔راجائوں اور باد شاہوں کی کہانیاں تو ذوق و شوق سے سُنی جاتی تھیں۔بچوں کی تربیت بھی ہوتی تھی اور تفریحِ طبع بھی۔یہ زبانی سُنانے والی کہانیاںکِتابوں کی صورت میں بھی موجود ہیں۔ اس ضمن میںیہ بات بھی کہنا لازمی ہے کہ آج کے ترقی یافتہ اور ٹکنا لوجی کے دور میںان قصّے کہانیوں کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی ہے جو پہلے زمانے میں تھی کیو نکہ آج کا بچہ شعوری طور سے بالیدہ ہے ۔وہ اُڑنے والے قالینوں،کل والے گھوڑوں،بولنے والے پرندوں اور جانورں ، جنّوں، پریوں ،بھوتوں اوردیو مالائی یا محیّر العقل حکایات پر نہ تو یقین کرسکتا ہے اور نہ ہی متاثرہو سکتا ہے نیز ایسی باتیں موجودہ دور میںغیر حقیقی،فرسودہ اوربے کار وبے معنی سمجھی جا سکتی ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے با وجود بہت ساری ایسی کہا نیاں بھی ہیں جو زمّاں اور مکاں سے ماورا ہیں۔ وہ ہردور میں سود مند ثابت ہو سکتی ہیںاور ان سے کوئی نہ کوئی اخلاقی درس سیکھا جا سکتا ہے۔یہ قصّے بچوں کے ادب کا قیمتی اور قدیم ذخیرہ ہے جسے محفوظ کرنے کی ضرورت آج بھی ہے۔

اردو میں ایسی کتابوں کا ایک بہت بڑا سر مایہ مو جود ہے اور آج بھی کچھ لوگ اس سمت میںپیش رفت کر رہے ہیںاور بچوں کے ادب کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی ادیب طبع زاد لکھ رہے ہیںاور کچھ دوسری زبانوں کی ادبیات کے تراجم قلم بند کر رہے ہیں۔ایسی ہی ایک کتاب ’’اچھی کہانیاں، اچھے بچوں کے لئے‘ ‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے ۔ جس کو نیلو فر ناز نے تحریر کیا ہے۔
’’ اچھی کہانیاں ،اچھے بچوں کے لئے‘‘کی مصّنفہ نیلوفر ناز صا حبہ کا نام ادبی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔کشمیری اور اردو زبانوں میں افسانے بھی لکھتی ہیں اورشعر بھی کہتی ہیں۔ کشمیری میں ایک اور اردو میں ان کے تین افسانوی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ چوں کہ فارسی زبان و ادب کی معلمہ رہ چکی ہیں اس لئے فارسی زبان پر بھی دسترس ہے۔فارسی سیکھنے والے طالب علموں کی سہولیت کیلئے تین کتابیںقلم بند کی ہیں۔ بچوں کے لئے لکھی گئی پیشِ نظر کتاب بہ عنوان’’ اچھی کہانیاں اچھے بچوں کے لئے ‘ فارسی ادیب مہدی آذر یزدی کی کہانیوں کی کتاب’’ قصّہ ہائی خوب برائے بچہ ہائی خوب‘‘ کا اردو تر جمہ ہے۔

اصل میں یہ کہانیاں رُستم کے بیٹے مرزبان نے لکھی ہیںاور چوتھی صدی ہجری میںمرزبان نامہ کے عنوان سے قدیم طبرستانی(ما زند رانی)میں تحریر کی گئی تھیںاور پھر دو سو سال کے بعد چٹھی صدی ہجری میں سعد الدین ورا ویتی نامی مُصّنف نے فارسی زبان میں قلم بند کیا۔ فارسی زبان و ادب میں کلیلہ و دمنہ کی طرح مرزبان نامہ کی کہانیاں بھی خاصی اہمیت کی حامل ہیںجس کی ایک بڑی و جہ ا ن کہانیو ں کا طرز تحریر اوردوسرا سبب وہ مقاصد اور نصائح جو اِن سے بر آمد ہوتے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچے مشکل متن کی وجہ سے اس کو سمجھنے سے قاصر تھے اور اسی بناء پر مہدی آذر یزدی نے اس کا ترجمہ آسان اورعام فہم فارسی زبان میں کیا ہے تا کہ وہ مطا لب پورے ہوسکیں جن کے لئے یہ قصّے لکھے گئے تھے۔

اصل مرز بان نامہ میں مہدی آذر یزدی کے مطابق ۷۰ کہانیا ں ہیںلیکن انہوں نے صرف ان ہی اکیس(۲۱) کہانیوں کا تر جمہ کیا ہے جو ان کے مطا بق ایسی خو ب صورت کہانیاں ہیں جن سے ہر وقت کوئی نہ کوئی اچھا درس سیکھا جا سکتا ہے۔ نیلو فر صاحبہ نے ان ہی سادہ متن میں لکھی گئیںاکیس کہانیوں میںسے دس(۱۰) کہانیوں کا تر جمہ اس کتاب میں پیش کیا ہے ۔اس میں سادہ اور آسان زبان کو برتا گیا ہے جس کو بچے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔اس کتاب کی غرض وغایت مُصنفہ نے اس طرح بیان کی ہے :۔

’’میں چا ہتی ہوں کہ بچوں میں پہلے کی طرح پھر سے کہانیاں پڑھنے اور سننے کاشوْق جاگ اُٹھے جس سے ان کی ذہانت، علم اور عقل مندی میں اضافہ ہواور دین اور دُنیاکی باتیں بھی ان کی سمجھ میں آئیں۔‘‘
کہانی کہنے ،سننے اور پڑھنے کا ایک مقصدتو یہی ہے کہ علم اور ذہانت میں اضافہ ہو، اخلاق کی دُرستی ہو اور اپنے اسلاف اور بزرگوں کے حالات واقعات سے واقفیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی تہذ یب و ثقافت کو بھی سمجھاجا سکے۔اس کتاب میںدس کہانیو ں کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں:۔

۱۔لومڑی اور مُرغا،۲۔شکاری بلّی،۳۔پیدل اور سوار،۴۔مچھلی خور کی توبہ،۵۔چوہا اور سانپ ۶۔آتش خوارپرندہ،۷۔میمنے کی آواز،۸۔خر سوار گیڈر،۹۔بلّی اور چوہااور۱۰۔مُرادوں کا پیڑ
یہ سبھی کہانیاں دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی کہانیو ںمیںزند گی کو احسن طریقے سے گذارنے کے اسرار اورر موزمضمر ہیں۔خوشامد،خود غرضی،لالچ، دھوکہ ،فریب، ظلم ، کام چو ری ،چغل خوری، مکّاری،عیّار ی ،چالبازی اور منافقت جیسے منفی روّیے اپنانے یا ان کا شکار ہو نے سے کو ن سی مشکلات پیش آسکتی ہیں،ان کہانیو ں میں جہاںان کا بیان ہے وہیں چنداعلیٰ اورمثبت روّیوں ،مثلاََ صبر، شکر،محنت اور مُشقّت ،قناعت،عدل و انصاف،حوصلہ، ہمت ،دانش ا و رعقل سے کام لے کر تمام مصائب سے کیسے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے ،بتایا گیا ہے۔کچھ کہانیو ں سے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بے کار کے مبا حث میں پڑنے اور بنا سو چے سمجھے اور بغیر دلیل بات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئیے کیونکہ ایسا کرنے سے کبھی کبھی خجالت اورشرمندگی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ اپنے گھر والوںسے کوئی بھی با ت چھپانااور بڑوں کے مشورے کے بغیر کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہئیے اور کسی کو اپنی سادہ لوحی کا استحصال کرنے کی اجازت کبھی بھی نہیں دینی چاہئیے۔ مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے قصّے بیان کرنے کامدّعا اور مقصدبرائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اچھائیو ں کو اپنانے کا درس دینا ہے۔

ادبِ اطفال کے حوالے سے برّصغیر میں اردو زبان میں ایک بیش بہا ذخیرّہ موجود ہے ۔ ما ضی کے تقریباََ ہر ادیب نے بچوں کے لئے نظمیں ، کہانیاں، ڈرامے اور ناول بچوں کی ذہنی اور اخلاقی ضرور یات کو مدّ نظر رکھ کر لکھے ہیںاور آج بھی ایسا ادب خوب صورتی سے تخلیق کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہماری ریاست میں ایسے ادب کی طرف بہت کم توّجہ دی گئی ہے۔ایسے میں ’’اچھی کہانیاں اچھے بچوں کے لئے‘‘ کتاب کا منظرِ عام پر آنا ایک مستحسن اور خوش آئندعمل ہے۔

نیلو فر ناز صاحبہ مبارک بادی کی مستحق ہیںکہ ایسی عمدہ اور نصیحت آموز کہانیوں کو فارسی سے اردو زبان میں منتقل کرنے میںپہل کی ہے کیونکہ مرزبان نامہ کی کہانیو ں کا اس سے پہلے کسی نے اردو میں تر جمہ نہیں کیا ہے اسلئے اوّلین تر جمہ کار کا سہرا بھی مصّنفہ کے سر ہے۔ اس طرح کی کتابوں کی ضرورت ہر زمانے میں رہتی ہے۔ان کی اہمیت سے کبھی بھی انکار کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس تیز رفتاری سے ٹکنا لوجی میںاور مادّی طور پر ترقی یافتہ ہو رہا ہے اُسی رفتار سے اخلاقی پستیوں میں گرتا جا رہا ہے۔ مادّیت پرستی نے اسکی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو ساری ذمہ داریاں سونپ کر اپنادامن نہ جھاڑیں بلکہ اپنی ذمّہ داریو ں کا احساس کریں اور اپنے بچوں کی صحیح نشو و نما اورتربیت میں اپنا حصّہ ادا کریں اور اس میں ایسی کتابیں اور کہانیاں معا ون ثابت ہوسکتی ہیں۔ بچوں کی معاشرتی،تہذیبی ،اخلاقی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اچھا انسان بنانے میں ایسے ادب کی ضرورت کل بھی تھی،آج بھی ہے او ر آنے والے کل میں بھی رہے گی ۔ کشمیر میں اس ادب کے حوالے سے نیلو فر ناز صاحبہ کی یہ کتاب ایک خوب صورت او رکار آمد اضافہ ثابت ہو سکتی ہے۔کتاب کا خوب صورت سر ورق بچوں کی توجہ کتاب کی طرف مبذول کرنے کا باعث ضرور بنے گا ۔ہر کہانی کے عنوان کے مطابق بچوں کی دلچسپی کے لئے تصویریں بنائی گئی ہیںجو کتاب کی مزیدخوب صورتی کاباعث ہیں۔کتاب کا کا غذاچھا اور معیاری ہے۔قیمت بھی واجبی ہے۔
���