’’نوید سحر‘‘۔ ایک اجمالی جائزہ تجزیہ

ایس معشوق احمد

مرد اور عورت میں امتیازات کے باوجود اس لحاظ سے یکسانیت پائی جاتی ہے کہ خالق نے دونوں کو تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔اس بات کا ثبوت دیگر شعبہ جات کے علاوہ اردو ادب میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جہاں مردوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جواہر دکھائیں وہیں خواتین بھی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار میں پیچھے نہیں ہیں۔عصر حاضر میں شاعروں کے دوش بدوش جو شاعرات غزل کی زلفیں سنوار رہی ہیں ،ان میں فریدہ انجم بھی شامل ہے۔ اس محبت کی سہل بیان شاعرہ کے اب تک دو شعری مجموعے شعاع انجم ( 2018)ء اور نوید سحر (2022) ء منظر عام پر آچکے ہیں۔ابتداء ہی میں فریدہ انجم کے اس شعر پر نظر پڑتی ہے غالبا جس سے مجموعے کا عنوان اخذ کیا گیا ہے۔
منزل انھیں ملے گی جو محو سفر میں ہیں
بجھتے ہوئے چراغ نوید سحر ہی ہیں
نوید سحر کا انتساب مصنفہ نے اپنے استاد محترم شوکت محمود شوکت کے نام کیا ہے۔اظہار تشکر کے کلمات لیے’’حرفے چند‘‘ جو شاعرہ کے قلم سے نکلے ہیں ،کے بعد ڈاکٹر گلزار احمد بٹ کا مضمون ’’ فریدہ انجم محبت کی شاعرہ کو مجموعے میں شامل کیا گیا ہے جس میں شاعرہ کی شاعرانہ خصوصیات اور امتیازات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ط، صدیقی اور محمد اطہر فاضل کے مختصر مضامین کے بعد پانچ مشاہیر راشد احمد ، پروفیسر عدیم چودھری ،مقبول فیروزی ، وجہیہ احمد تصور اور اظفر کاشف پوکھریروی کے تاثرات شامل ہیں۔ یہ مجموعے مختصر ہے کل ایک سو اٹھائیس صحفات پر محیط جس میں کل ایک حمد جو سات اشعار پر مشتمل ہے اور اڑتالیس غزلیات شامل ہیں۔آخر پر فریدہ انجم سے مصاحبہ کار یوسف سپر نے جو انٹرویو چار مارچ 2021 کو آن لائن لیا تھا، کی تلخیص شامل ہے۔مجموعے کا بیک فلپ یعقوب یاور نے لکھا ہے اور شاعرہ کی خوبصورت تصویر بھی بیک کی زینت کو بڑھا رہی ہے۔اندرونی بیک کور پر فریدہ انجم کے نام ایک نظم از شوکت محمود شوکت درج ہے جس میں شوکت محمود شوکت نے دعوی کیا ہے کہ فریدہ انجم کی شاعری پر مجھے گمان ہوا کہ یہ کلام معروف اردو شاعرہ لطف النساء امتیاز کے معیار کا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو _ ؎
پڑھی جو شاعری ہم نے ’فریدہ انجم ‘کی
گمان ان پہ ہوا امتیاز ثانی کا
غزل کا بنیادی موضوع حسن وعشق ہے۔ اس حسن و عشق کی داستان کو فریدہ انجم نے بھی نوید سحر میں چھیڑا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی غزلیات کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر عشق کے دوران جو حالات و واقعات پیش آئے ان حقیقی جذبات واحساسات کو آسان اور عام فہم زبان میں انہوں نے غزل میں پیش کیا ہے۔ شاعرہ کبھی خود سے سوال کرتی ہے کہ میں وفا کی راہ میں تو نکلی ہوں لیکن میں نے وفا کا کٹھن راستہ نہیں دیکھا، کبھی عرصہ سے ملنے کی خواہش اور تمنا کا اظہار کرتی ہے، کبھی معصومیت سے یہ کہتی ہے کہ مجھے دل پر اختیار نہیں جب میں اسے دیکھتی ہوں تو مسکراتی دیتی ہوں مجھے وہ اچھا لگتا ہے میں کیا کروں، کبھی اس کے قریب سے جب وہ گزرتا ہے تو خاموش لب کے باوجود بات ہوتی ہے، کبھی اسے محبت مثالی لگتی ہے کہ اس کی یاد آتی رہتی ہے،کبھی اس کے لوٹ کر آنے کی خبر اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے،کبھی جب اسے محبوب کی یاد آتی ہے تو وہ کروٹ پہ کروٹ بدلتی رہتی ہے۔محبت کی مختلف کیفیات کو اشعار میں پیش کرنے کی شاعرہ کے چند اشعار دیکھیں :
وفا کی راہ پہ نکلی تو ہوں مگر انجم
کٹھن وفا کا جو ہے راستہ نہیں دیکھا
تم سے ملنے کی کیا کہوں کب سے
ایک خواہش ہے اک تمنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی یاد آتی رہتی ہے
یہ محبت بھی بے مثالی ہے
لوٹ کر آنے کی اک خبر انجم
حوصلہ سا مرا بڑھاتی ہے
نوید سحر میں عشق کی تین کیفیات کا غلبہ ہے محبت ، جدائی اور آرزو ۔کبھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے تو کبھی دل ٹوٹنے کا نوحہ لکھا جا رہا ہے، ایک بار جب اعتبار ٹوٹ جائے تو انسان آسانی سے دوسروں پر بھروسہ نہیں کرتا ،کبھی اس کیفیت کو شعر کی خلعت عطا کی گئی تو کبھی ساتھ جینے کی تمنا کا اظہار کیا جارہا ہے، کبھی اس بے بسی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دل سے تیری محبت نہیں جاتی ،کبھی بے وفا پہ مرنے کا اقرار کیا جارہا ہے۔مثالیں دیکھیں :
تمہیں نے بھی توڑا ہے جب میرا دل
میں کیسے کسی پر بھروسہ کروں
اب رنگ زندگی کا بے رنگ ہوگیا ہے
اک ایک آرزو کو انجم میں مارتی ہوں
نہیں دل سے جاتی محبت تری
خدا کے لیے بھول جانا نہیں
ہمیں جس نے انجم نہ اپنا کہا
اسی بے وفا پر ہی مرتے رہے
ایک تخلیق کار کی اپنے آس پاس رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر ہوتی ہے۔وہ ان واقعات پر کبھی نوحہ کناں ہوتا ہے تو کبھی ان کو اشعار میں پرونے کی کوشش کرتا ہے۔فریدہ انجم کے گرد جو حالات ہیں ان کو انہوں نے اپنی شاعری میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے دنیا کی بےثباتی کا بھی تذکرہ کیا ہے اور حوصلہ نہ ہارنے کی بھی بات کی ہے۔
یہاں پر عزتیں لٹتی ہیں ہر سو
یہاں جینے کا راستہ ہی نہیں ہے
رعایا سب پریشان ہے یہاں پر
مگر شہ کو تو پروا ہی نہیں ہے
موت کے سامنے سارے مجبور ہیں
بچ کے جائیں کدھر کوئی رستہ نہیں
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نوید سحر کے موضوعات محدود ہیں۔ اس میں نہ فلسفے کے نکات زیر بحث آئے ہیں نہ حکمت کی باتیں ہیں نہ آفاقیت کے عناصر ہیں نہ شاعرہ نے بلندیوں اور پستیوں کی سیر کرائی ہے۔ اشعار کی زبان بھی گنجلک اور پیچیدہ نہیں، نہ علامتوں کا استعمال کیا گیا ہے بلکہ عام فہم زبان میں عشق اور اس کی مختلف کیفیات، جدائی ، بے وفائی ، محبوب سے ملنے کی خواہش کا اظہار اور اس نوعیت کے مضامین کو تواتر سے موضوع بنایا گیا ہے۔ فریدہ انجم یہ اقرار کرتی ہے کہ ؎
شاعرہ ہوں عظیم آبادی
شاعری کی مری اڑان تو ہے
عظیم آباد کی اس شاعرہ میں واقعی ایسی اڑان اور فن میں پختگی آئے کہ اس کی فنکاری کی گونج دنیا کے ادبی حلقوں میں سنائی دے۔ اس کے قلم سے ایسے اشعار نکلیں جو زبان زد عام ہوں اور خاص کی ادبی ذوق کی تسکین کرنے میں معاون ہوں۔ میری دعا ہے اب کے بار محبت کی مختلف کیفیات کی یہ شاعرہ اپنا حال دل بیان کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اسے یہ گلہ نہ رہے کہ ہم سے اظہار نہ ہوسکا۔
حال دل ہم بیان کیا کرتے
ہم سے اظہار ہوسکا ہی نہیں
(رابطہ۔8493981240)
[email protected]