نوکریوں کے امتحانات ۔ذہنی کوفت یامحض اُمید؟ حسبِ حال

سید مصطفیٰ احمد ۔بڈگام

کیایہ ہماری خوش فہمی نہیں ہے کہ ہم امتحانات کے ذریعے نوکری کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ جبکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نوکری کا حصول ریگستان میں فریب ِ نظرکی مانند ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اب یہاں کے تعلیم یافتہ بے روزگار کی اُمیدیں بھی نا اُمیدی میں بدل چکی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دلاسہ دلانے والے،بے روزگاروں کووقفہ وقفہ کے بعدایسی مَے پلاتے رہتے ہیں،جس کے نشے میں وہ کچھ وقت کے لئے مست ہوکراصل حقیقت سے غافل رہ جاتے ہیں۔حالانکہ سب کو معلوم ہےکہ تاحال حکومت بھی اس لاچار بستی کےبے روز گاروں کو روزگارفراہم کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی ہےاور نہ ہی اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کررہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اصل میں یہاں کے لئےنظام کو بنانے والے اورپھر اس نظام کو چلانے والے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں،اسی لئے اُن کے دعوے،وعدےاور دِلاسے،سب بے معنی ثابت ہورہے ہیں،گویا فریب کاری کے اس بازار میں وہ سب باپو، باپاری ہیں۔ جن طلباء اور طالبات نے اپنے والدین کی خون پسینے کی کمائی اور دن رات کی کڑی محنت سے اپنی پڑھائی اس نیت سے حاصل کی ہوتی ہے کہ اس تعلیم سے جہاں اُن کا مستقبل سنور سکے، وہیں وہ اپنے گھر والوں کا سہارا بھی بنیں،لیکن ایسا نہ ہونے کے نتیجہ میں آج وہ اپنے آپ کو ہی کوس رہے ہیں کہ کیوں انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس فضول کام (حصول تعلیم )میں صرف کیا ہے؟
اب جب کہ تعلیم کے ساتھ منسلک شعبے ہی غلاظت سے پاک نہیں رہے ہیں، تو پھرہمارے یہاں کے نظام میں دوسرے شعبوں کی صورت حال کیا ہوگی،اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بیس ،بائیس سال تک پڑھنے کے بعد بھی اب اگر تعلیم یافتہ نوجوان کو نوکری حاصل کرنے کے لئے نابکاروں،بدعنوانوں،دلالوں،رشوت خوروں اورچوروں کے تلوے چاٹنے پڑتے ہیں، تو اِس پڑھائی سے بہتر ناخواندہ رہنا ہی ٹھیک ہے۔ شائددنیا کے کسی کونے میں ایسا نہیںہوتا ہوگا کہ نوجوان نسل ،نظام بنانے اور نظام چلانے والوں میں چھپے ایسےافراد کی چیرہ دستیوں اور ریا کاریوں کے شکار ہورہے ہوں۔ ہاں! اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بےروزگاری ہر جگہ موجود ہے۔ مگر جس قدرجموں وکشمیر میں پائی جاتی ہے، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ روزانہ ایک ہی راگ اِلاپا جاتا ہے کہ حکومت کا بنیادی مقصد لوگوں کو آرام فراہم کرنا ہے۔ نوجوانوں کے لئے مختلف روزگار کے مواقع تلاش کئے جارہے ہیں، یہ خبریں اخبارات کی شہ سرخیاں بنتی رہتی ہیں تاکہ لوگ مخمصے میں نہ پڑیںاور تواتر کے ساتھ اُمید لگائے رہیں۔ لیکن جب زمینی صورتحال پر نظر ڈالی جاتی ہے تو وہاں پر درد و غم کے پہاڑآسمان کو چومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بلا شبہ لالچ اور اخلاقی دیوالیہ پن نےیہاں کے انسان کو شیطان بنا دیا ہے۔ دولت اور شہرت نے یہاں ہر کسی کو ایک ایسی دوڑ میں لگا دیا ہے کہ اب انہیں آگے پیچھے کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ بینک بیلنس، گاڑیاں، زمین، جائیدادیں، اوراپنے اولاد کی خوشیوں کے لئے اب یہ انسان اتنا خودغرض بن چکا ہےکہ دوسرے انسانوں کی خوشیوں کو لوٹنے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔پرانے پاپیوں نے نئے پاپیوں کو جنم دیا ہے۔چنانچہ جب ایک جعلی اُستاد کوپندرہ سال کے بعد پکڑا جاتا ہےاور پھر نوکری سے نکالا جاتا ہے، تو اُس کی پوزیشن اس ڈاکٹریٹ طالب علم سےحد درجہ بہتر ہوتی ہے جو سالہا سال سے یہ اُمید لگائے بیٹھے ہوتاتھا کہ ایک دن اُس کا خواب بھی پورا ہوگا۔ اخلاقی طور پر یہاں ہر مذہب و ملت کا فرد اس گناہ میں شامل ہے۔ ایک زمانے میںانسان کو خدا کے یہاں حاضر ہونے کا ڈررہتا تھا۔ حرام کاموں سے ہر ممکن پرہیز کیا جاتا تھا، لوگ کم سے کم پر بھی مطمئن ہوا کرتے تھے، زیادہ سےزیادہ کی فکر لاحق ہونے کا خدشہ بھی نہیں تھا، مگر اب صورتحال بالکل تبدیل ہوچکی ہے۔ حیوانی جبلیات نے وسیع پیمانے سےانسان پر غلبہ حاصل کیا ہے۔ جس کے مکروہ چہرے بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ اگرچہ اطمینان حاصل کرنے کے لئے دولت کے انبار لگائے جاتے ہیں مگر پھر بھی اطمینان حاصل نہیں۔ دوسروں کی توجہات کا مرکز بننے کے لئے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، جو بھی راستہ اختیار کرنا پڑے مگر جھوٹی شناخت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ اس ریاکاری نے بہتوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
کشمیر میں تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو بچانے کے لئے امتحانات میں شفافیت لانے کی اشد ضرورت ہے۔ نچلی سطح سے لے اعلیٰ درجے تک، ہر جگہ جوابدہی کا عنصر شامل ہونا چاہیے۔ خصوصاًامتحانات کے ذریعے نوکریاں حاصل کرنے کے نظام کو صاف و پاک بنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ذہنی امراض میں اضافہ، خودکشیوں کی بڑھتا ہوا رجحان، شادیوں میں تاخیر،اور دیگر کئی خرابیوں اوربُرائیوں کی روک تھام تب ہی ممکن ہے جب نوجوانوں کو ذہنی کوفت سے نکال کراُن کے زخموں پر مرہم لگایا جائے۔ سب سے پہلے سرکاری نظام میں موجود چوروں کو باہر کا دروازہ دکھانا چاہئے۔ اس کے بعد عام لوگوں میں بھی جو اس گناہ میں ملوث ہوں، ان کے ساتھ بھی سختی سے نپٹنا چاہئے۔ قوانین صرف کتابوں تک محدود نہ رہے بلکہ ان کو زمینی سطح پر بھی نافذہونا چاہیے۔ اس ضمن میں سب کو آگے آنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کو کوئی مستقبل ہو، تو سب کو اس بارے میں سنجیدہ غور وفکر کرنا ہوگا۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]