نماز میں فرض قرأت کا معیار فکر انگیز

مفتی منیب الرحمٰن

نماز میں تلاوتِ قرآن ، تکبیرات ،درود شریف نیز نماز کے باہر وہ تمام اُمور جو نطق سے تعلق رکھتے ہیں ،مثلاً : ذبیحے پر بسم اللہ پڑھنا ، آیتِ سجدہ کی تلاوت پر سجدۂ تلاوت کا وجوب ، طلاق دینا ، غلام کو آزاد کرنا ، غرض کہ جن اُمور کا تعلق نُطق کے ساتھ ہے، اُن کی صحت کے لیے کم ازکم اتنی آواز ضروری ہوتی ہے کہ اگر کوئی مانع مثلاً ثقلِ سماعت یا شور شرابا نہ ہوتو خودسن سکے۔ لہٰذا اگر کسی نے زبان سے الفاظ تو ادا کیے ،مگر اس طرح کہ صرف زبان کو حرکت دی اور آواز خود اس کے اپنے کانوں تک نہیں پہنچ پائی ،تو اُن الفاظ کی ادائیگی کا اعتبار نہیں۔ علامہ برہان الدین ابوبکر فرغانی لکھتے ہیں : ’’پھر نماز میں پست آواز میں قرأ ت یہ ہے کہ اپنے آپ کو سنائے(یعنی پڑھنے والے کو خود سنائی دے ) اور جہر(بلند آواز سے پڑھنا) یہ ہے کہ دوسرے کوسُنائے۔کیونکہ آواز کے بغیر محض زبان کی حرکت کا نام قرأ ت نہیں ہے‘‘۔(ہدایہ اولین ، ص:98)
تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ’’ بلند آواز کی کم ازکم مقدار یہ ہے کہ دوسرا سُنے اورپست آواز کی کم ازکم مقدار یہ ہے کہ خود سن سکے ،یہ ضابطہ ہر اُس مقام کے لیے ہے، جس کا تعلق نُطق سے ہے، جیسے ذبیحے پر بسم اللہ پڑھنا ، آیتِ سجدہ پڑھنے پر سجدے کا وجوب ، غلام کو آزاد کرنا ، طلاق دینا اور کلام میں کوئی استثنیٰ کرنا ۔ لہٰذا اگر طلاق دی یا استثنیٰ کیا اور خود نہ سُنا ، صحیح ترین مذہب کے مطابق طلاق اور استثنیٰ صحیح نہیں ہوگا۔(جلد1،ص:535)
علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں:’’ صحیح قول کے مطابق قرأ ت کی حد یہ ہے کہ حروف کو اپنی زبان سے اس طرح صحیح طور پر اداکرے کہ خود کوسُنائی دے۔(البحرالرائق، جلد1،ص: 510)،لہٰذا اگر قرأ ت کی مقدار واجب میں بعض حصہ دل میں پڑھ لیا یا زبان سے لفظ تو ادا کیے ،مگر آواز کانوں تک سُنائی نہ دی تو مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوا ، سجدۂ سہو یا نماز کا اعادہ لازم ہے۔ یہ درست نہیں ہے کہ سانس باہر نکال کر یا روک کر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرأ ت کی آواز نمازی کو خود سُنائی دے اورتلفظ ادا ہو، محض دل میں پڑھنے سے جس کی آواز اورتلفظ خود کو بھی سُنائی نہ دے، اُس سے فرض قرأ ت ادا نہیں ہوگا، بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ بعض حضرات کے تو نماز پڑھتے ہوئے ہونٹ بھی حرکت نہیں کرتے اور نہ آواز کا پتہ چلتاہے ، ان کی نماز ترک ِ فرض کی وجہ سے باطل ہوجاتی ہے۔